بنت ہمالہ
آہ! گنگا یہ حسیں پیکر بلور ترا
تیری ہر موج رواں جلوۂ مغرور ترا
جور مغرب سے مگر دل ہے بہت چور ترا
جھانکتا ہے ترے گرداب سے ناسور ترا
ظلم ڈھائے ہیں سفینوں نے ستم گاروں کے
زخم اب تک ترے سینے پہ ہیں پتواروں کے
محو رہتے تھے ستارے تری مے پینے میں
چاند منہ دیکھتا تھا تیرے ہی آئینے میں
خلوت مہر درخشاں تھی ترے سینے میں
تیری تابانیاں آتی نہ تھیں تخمینے میں
آج روتی ہے مگر تیری جوانی تجھ کو
کھا گیا آ کے یہاں 'ٹیمز' کا پانی تجھ کو
آہ اے کوہ ہمالہ کے غرور سیال
تیرے دامن پہ کبھی بیٹھی نہ تھی گرد ملال
منہ ترا پونچھتا تھا چاند کا سیمیں رومال
زخم سینے پہ لیے آج ہیں دھارے تیرے
اف کہاں ڈوب گئے چاند ستارے تیرے
ریگ دوزخ کو چھپائے ہے قبا کے اندر
ہولناک آج ہے کتنا یہ دہکتا منظر
شام ہی شام نظر آتی ہے کیوں ساحل پر؟
کیوں تری موجوں سے چھنتے نہیں انوار سحر؟
روشنی کیوں ہوئی جاتی ہے گریزاں تجھ سے
کیوں اندھیروں کے ہیں لپٹے ہوئے طوفاں تجھ سے
آج ساحل پہ نظر آتی ہے جلتی ہوئی آگ
آدمیت کا سلگتا ہے ہواؤں میں سہاگ
آج ہے ساز سیاست کا بھیانک سا راگ
پھن اٹھائے ہوئے بل کھاتے ہیں شعلوں کے ناگ
آج انسان کو ڈستی ہیں ہوائیں تیری
زہر سے کتنی ہیں لبریز فضائیں تیری
آئی ہے ٹیمس سے اک موج رواں گاتی ہوئی
تجھ کو آزادی کے پیغام سے بہلاتی ہوئی
روح مے خانہ لیے شوق کو بہکاتی ہوئی
ناز کرتی ہوئی ہنستی ہوئی اٹھلاتی ہوئی
لاکھ الجھا کریں زلفوں میں الجھنے والے
اس کے عشوؤں کو سمجھتے ہیں سمجھنے والے
لیکن اے بنت ہمالہ تری عظمت کی قسم
سیل کے سانچے میں ڈھالی ہوئی رفعت کی قسم
تیرے جلووں کی قسم، تیری لطافت کی قسم
تیری موجوں سے ابھرتی ہوئی ہمت کی قسم
اب تری آنکھوں کو نمناک نہ ہونے دیں گے
دامن ناز ترا چاک نہ ہونے دیں گے