بنائے ارض و فلک حرف ابتدا ہوں میں

بنائے ارض و فلک حرف ابتدا ہوں میں
بکھر گیا تو سمجھ لو کہ انتہا ہوں میں


یوں ہی سلگتے رہو آگ کی قبا ہوں میں
تمہیں بچاؤں‌ گا کیا خود سلگ رہا ہوں میں


اٹھائے پھرتا ہوں بے شخصیت بدن اپنا
اور اپنے گمشدہ چہرے کو ڈھونڈھتا ہوں میں


یہ کہر کہر سے چہرے دھواں دھواں آواز
تمہارے شہر میں شاید ابھی نیا ہوں میں


لہو لہو سی کھنڈر کی تمام اینٹیں ہیں
کہاں سے نکلوں کہ اک آہ نارسا ہوں میں


نئی ہے مشق نہ جانے کہاں پہ گر جاؤں
نفس کی ڈور پہ کرتب دکھا رہا ہوں میں


کمالؔ جھوٹ ہے یارو فقط فریب ہے وہ
کمالؔ سچ کو ابھی تک تلاشتا ہوں میں