بجلی گری ہے کل کسی اجڑے مکان پر

بجلی گری ہے کل کسی اجڑے مکان پر
رونے لگوں کہ ہنس پڑوں اس داستان پر


وہ قہر تھا کہ رات کا پتھر پگھل پڑا
کیا آتشیں گلاب کھلا آسمان پر


اک نقش سا نکھرتا رہے گا نگاہ میں
اک حرف سا لرزتا رہے گا زبان پر


اپنے لیے ہی آنکھ کا پردہ ہوں رات دن
میں ورنہ آشکار ہوں سارے جہان پر


شیر آ کے چیر پھاڑ گیا مجھ کو خواب میں
دم بھر کو میری آنکھ لگی تھی مچان پر


پیاسی ہے روح جسم شرابور ہے تو کیا
بیکار مینہ برستا رہا سائبان پر


پیلی ہوا میں خون کا ذرہ اڑا ہی تھا
پاگل ہوا یہ شہر ذرا سے نشان پر


خالی پڑی ہیں بید کی بیمار کرسیاں
خوں خواب دھوپ دھند برستی ہے لان پر


کس تازہ معرکے پہ گیا آج پھر ظفرؔ
تلوار طاق میں ہے نہ گھوڑا ہے تھان پر