پاکستان میں بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ کی وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان کا عام آدمی اس وقت ایک چومکھی لڑائی لڑ رہا ہے۔ایک طرف سیاست کی گرمی، دوسری طرف تاریخی ہیٹ ویو، تیسری طرف کمر توڑ مہنگائی اور چوتھی طرف ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ۔ کہیں بھی تو سکون نہیں ہے، کوئی بھی حکومت کسی شعبے میں بھی تو عام آدمی کو ریلیف نہیں دے پارہی۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ اس چومکھی لڑائی میں زیادہ تابڑ توڑ حملے عام آدمی پر کس جانب سے ہورہے ہیں، لیکن فی الحال تو گرمی اور لوڈ شیڈنگ نے مل کر جو بھرکس عوام بے چاری کا نکالا ہے، وہ شاید کسی اور نے نہیں کیا۔ سورج مہاراج ہیں کہ اس وقت دنیا پر اپنے عملداری پوری طرح ثابت کرنے کے موڈ میں نظر آتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ نے یک نہ شد، دو شد کے مصداق اس ملک کے باسیوں کو بری طرح مصیبتوں سے دوچار کردیا ہے۔
ابھی تازہ خبر ہے کہ بجلی کا شارٹ فال 7000 میگاواٹ تک پہنچ چکا ہے اور ابھی یہ مئی کا مہینہ چل رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کم از کم جون کے اواخر تک تو لوڈ شیڈنگ میں کمی ہوتی نظر نہیں آتی۔ کیونکہ گرمی بھی بڑھ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں شارٹ فال بھی بڑھنے کے خدشات موجود ہیں۔ شارٹ فال کی وجوہات وہی پرانی ہیں۔ موجودہ اتحادی حکومت بھی پاور ہاؤسز کو آر ایل این جی سپلائی نہیں کرپارہی۔ اب کیوں نہیں کرپارہی۔ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ آپ پوچھ کر شرمندہ نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔
اس وقت ملک کو 24000 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے جبکہ مختلف منصوبوں سے 17000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ پاکستان میں 29,000 میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن آر ایل این جی یا فیول کی سپلائی کے بغیر تو کوئی بھی پاور ہاؤس نہیں چل سکتا۔ لہٰذا لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔یہ بڑی وجہ ہے باقی سب عارضی وجوہات ہیں۔
ملک کے کم و بیش سب ہی علاقے بالخصوص پنجاب اور سندھ کا بیشتر حصہ اس وقت تاریخی ہیٹ ویو کا شکار ہیں اور اس دوران بغیر شیڈیول کے ہونے والی لوڈ شیڈنگ نے گرمی کے ستائے لوگوں کی مشکل کو مزید بڑھادیاہے۔
مزید ملنے والی خبروں کے مطابق گزشتہ پندرہ بیس دن تک تربیلا ڈیم پر ٹربائنز کی دیکھ بھال کے باعث 3,300 میگاواٹ کی کم ہائیڈرو جنریشن نے جنوبی پنجاب بالخصوص ڈی جی خان میں بجلی کی کٹوتی میں اضافہ کیا۔جبکہ دوسری طرف کراچی میں کے الیکٹرک اپنا وہی پرانا رونا رو رہا ہے۔ انہیں اپنی ناکامی عدم ادائیگی والے صارفین کے سر منڈھ دینے کا خاصا تجربہ ہوچکا ہے ۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ فیول کی عدم فراہمی ہی ہے۔حکومت اس وقت صرف گڈو اور 450 میگاواٹ کے دیگر پاور پلانٹس چلا رہی ہے ، جس سے صورتحال مزید خراب ہو گئی ہے۔پہلے پہل شہباز شریف حکومت بجلی پیداوار میں شارٹ فال کو تسلیم ہی نہیں کررہی تھی، تاہم اب حکومت صرف 1500 میگاواٹ بجلی کے خسارے کو مان رہی ہے۔ لیکن اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت، بجلی کی ڈیمانڈ اور شارٹ فال کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہر 800 میگا واٹ کے شارٹ فال کے بدلے ملک میں محض ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہونی چاہیے۔ لیکن اصل صورت حال یہ ہے کہ ملک کے اکثر و بیشتر شہری علاقوں میں چھ تا آٹھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں تو بارہ تا چودہ گھنٹے تک بجلی کے بغیر ہی گزارہ کرنا پڑرہا ہے۔بلکہ بعض علاقوں میں 20 گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ سے لوگ بری طرح متاثر ہیں۔
اطلاعات کے مطابق پشاور میں 6 سے 10 گھنٹے ، اندرون سندھ میں 4 سے 14 گھنٹے، بلوچستان میں 22 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے جو حکومت دعوے یعنی محض 1500 میگا واٹ کے شارٹ فال کی قلعی کھول دیتی ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت چونکہ خود کو عارضی سمجھ کے وقت گزاری کررہی ہے لہٰذا یہ کسی بھی قسم کا درد سر اپنے ذمہ لینا نہیں چاہتی۔ ان کے بس میں یا تو کچھ نہیں یا پھر انہیں اس سے کچھ غرض نہیں کہ عام انسان کی زندگی اس لوڈ شیڈنگ نے کس قدر اجیرن بنارکھی ہے۔