بیماری کی خبر

جب خط میں تم لکھ دیتی ہو کچھ حال اپنی بیماری کا
میں بیٹھ کے تنہائی میں جانے کیا کیا سوچا کرتا ہوں


کچھ اندھے کوڑی دیوانے آنکھوں میں سمانے لگتے ہیں
کچھ قحط زدہ بھوکے پیاسے جاں خاموشی سے دے دے کر
دنیا میں مفلس رہنے کی تعزیریں پانے لگتے ہیں
کٹتے ہیں جن کے شام و سحر اک قابل نفرت خواری سے
جو مرتے ہیں آسانی سے اور جیتے ہیں دشواری سے
خوں چوس لیا ہے غیروں نے بیمار بھی ہیں نادان بھی ہیں
جینے کی تمنا دل میں ہے اور جینے سے بیزار بھی ہیں


اس درد کی ماری دنیا میں ایسے انساں کیوں بستے ہیں
جو ساری عمر ضرورت کی چیزوں کے لیے بھی ترستے ہیں
گو ایسے لوگ بھی ہیں جن کو آسائش ہی آسائش ہے
وہ سب ہے مہیا ان کے لیے جس چیز کی ان کو خواہش ہے
جن کے لیے سونا مٹی ہے جن کے لیے موتی سستے ہیں


لیکن مجبور انسانوں کو کیوں حق نہیں حاصل جینے کا
طوفان ہی کے قبضے میں کیوں پتوار ہے ان کے سفینے کا
کب تک بے بس انساں یوں ہی تقدیر کا رونا روئے گا
کب تک بے کچھ پائے ہوئے اپنا ہی سب کچھ کھوئے گا
کب تک اندھی بھیڑوں کی طرح یہ اپنی راہ نہ پائے گا
کب تک موت کے آگے سے پیچھے ہی ہٹتا جائے گا


پھر خود ہی دل بول اٹھتا ہے اب وقت بدلنے والا ہے
ذرے سورج بن جائیں گے وہ دور بھی آنے والا ہے
امید کی اک ننھی سی کرن مایوسی پر چھا جاتی ہے
اور اس کی ضو میں ایک نئی دنیا بازو پھیلاتی ہے
سوئی سی رگوں میں چبھتی ہے آنکھوں میں آنسو آتے ہیں
دل بے قابو ہو جاتا ہے جینے کی ہوس بڑھ جاتی ہے


جاں وقف تپش ہو جاتی ہے اور عزم بغاوت کرتی ہے
اس وقت اک سیل ارادوں کی سینوں سے ہو کے گزرتی ہے
دنیا کو خلد بنانے کا جو دھیان سا دل میں آتا ہے
ایسی خبروں کے سننے سے وہ اور قوی ہو جاتا ہے
جب خط میں تم لکھ دیتی ہو کچھ حال اپنی بیماری کا
میں بیٹھ کے تنہائی میں جانے کیا کیا سوچا کرتا ہوں


ہم جنگ کریں گے فطرت سے فطرت پر قابو پائیں گے
اور فطرت پر قابو پا کر اک روز امر بن جائیں گے