بچھڑا لمحہ

کھجوروں کے پیڑوں سے تھوڑا سا اوپر
جواں مستعد چاند
تنہا کھڑا
مرے گھر مرے شہر کی پہرہ داری میں مصروف تھا
چاند کی نرم دوشیزہ کرنیں
مرے واسطے نیند کا جال سا بن رہی تھیں
اچانک فضاؤں میں عنقریب چیخے
زمیں کی طرف بھوکی چیلوں کی مانند جھپٹے
جھپٹتے رہے
زمان و مکاں ایک لمحے پہ آ کر ٹھہر سے گئے
اسی ایک لمحے نے ساری فضا پر
کسی بوڑھی بیوہ کی چادر اڑا دی
کہ جس میں فقط موت کی حسرتیں تھیں
اور اگلے ہی لمحے نے بڑھ کر صدا دی
یہ لمحہ جو ہم سے بچھڑ کر گرا ہے
ہمارا نہیں تھا