بھری ہے آگ جیبوں میں کف افسوس ملتے ہیں

بھری ہے آگ جیبوں میں کف افسوس ملتے ہیں
ہماری ہی کمائی سے ہمارے ہاتھ جلتے ہیں


مرے اطراف میں یہ کھینچا تانی کم نہیں ہوتی
ادھر پہلو بدلتا ہوں ادھر جالے بدلتے ہیں


کسی کو بھی وہ انگارہ دکھائی ہی نہیں دیتا
اشارے سے بتاتا ہوں تو اپنے ہاتھ جلتے ہیں


میں اپنے جسم سے باہر ہوں یا روحوں کا مسکن ہے
انہیں میں چھو نہیں پاتا جو میرے ساتھ چلتے ہیں


ہمارے چاک پر عقبیٰ کئی شکلیں بدلتی ہے
یہ جنت اور جہنم تو ہمارے ساتھ چلتے ہیں


نظر انداز کرکے سب گزر جاتے ہیں مجھ میں سے
نفی کرتے ہوئے مجھ میں کئی رستے نکلتے ہیں


صدا بن کر بہت ٹکرائے ہیں مینار و گنبد سے
اب آنکھیں کھل گئی ہیں تو اندھیرے سے نکلتے ہیں