بھارت میں زرعی اصلاحات کا قانون

بھارت میں، جمعے کو مودی  نے سال بھر سے احتجاج کرتے کسانوں کے مطالبات مانتے ہوئے اپنے متعارف کردہ زرعی قوانین واپس لے لیے۔ یہ مظاہرین کے لیے ایک بڑی فتح ہے۔  لیکن یہ  حقیقت ہے کہ مودی کی طرف سے یہ  لچک  آمیز رویہ  دراصل اتر پردیش، پنجاب اور دیگر جگہوں پر ہونے والے اہم ریاستی انتخابات  کے سلسلے میں  ایک چال ہے۔

 

مخالفین سے سخت   ڈیل  کرنے   والے اور کبھی نہ جھکنے والے طاقتور رہنما  کی شہرت رکھنے والے مودی کے لیے ان قوانین سے پسپائی خاصی شرمندگی کا باعث بنی ہوگی۔   ایک سال قبل، مودی کی پارٹی کی طرف سے،  زراعت سے متعلق تین قوانین  نے ہندوستان کے  بہت سے حصوں میں احتجاج  کی لہر دوڑا دی۔

تقریباً ایک سال تک سختی سے ان قوانین کو منسوخ کرنے سے انکار کیا جاتا رہا اور مظاہرین  کو دبانے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے۔ ان قوانین کے بارے میں حکومت کا کہنا تھا کہ یہ  زرعی پیداوار کی فروخت کے ضوابط میں نرمی، قیمتوں  کے تعین اور   پیداوار کو ذخیرہ کرنے میں آسانی  کے لیے بنائے گئے  ہیں۔ ان قوانین سے پسپائی کا اعلان اس بات کی  غمازہے کہ طاقتور ترین افراد  سے بھی  گھٹنے ٹکوائے جا  سکتے ہیں۔

 ان قوانین کی  منسوخی ، نہ صرف ہڑتال کرنے والے کسانوں کے لیے خوش آئند ہے ،   بلکہ ایسی اپوزیشن کے لیے بھی خوش آئند ہے جو مودی کی حکمران جماعت ، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی پالیسیوں سے ناراضگی کے باوجود مایوسی سے منقسم ہے۔ اس سے امید کی تجدید ہوتی ہے کہ پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت والی حکومت کو  جھکایا جا سکتا ہے، اور یہ کہ ملک میں اختلاف رائے کی اب بھی گنجائش ہے۔

مودی کی شخصیت میں سے ان کی تقریر کرنے کی متاثر کن صلاحیت کو ان کا ٹریڈ مارک دکھایا جاتا ہے ۔ پھر چاہے  اعصاب شکن کووِڈ 19 وبائی بیماری کا حملہ ہو، جس نے ہندوستان کو تباہ  کر دیا اور دسیوں ہزار جانیں لے لیں، یا سرحد پار سے ہندوستانی علاقے میں چینی دراندازی ہو، مودی ہمیشہ   اپنے ٹریڈ مارک "پر جوش تقریروں"  کے ذریعے بچتے رہے ہیں۔ وہ تمام  تنقید کو ایک طرف رکھ کر ہر وقت جیت کا دعویٰ   کرتے ہیں۔    ان عوامل کے ہوتے ہوئے کسانوں کے احتجاج کے سامنے ہتھیار ڈالنا ایک ایسی چیز ہے  جو مودی کے دور حکومت میں کم ہی دیکھی گئی ہے۔

مودی اور ان کی بی جے پی حزب اختلاف  کو دبا کر من مانی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ آخری بار ان کی حکومت نے عوامی مطالبے کے  آگے گھٹنے 2015 میں ٹیکے تھے، جب  بی جے پی کو  ایسی قانون سازی واپس  لینا پڑی تھی جس نے  صنعت کاروں کے لیے زمین کا حصول بہت آسان بنا دیاتھا۔ اس کے بعد  سے اپنے راستے میں ہر چیز کو  بی جے پی منہدم کرتی انتہائی سفاکی سے آگے بڑھتی رہی ہے۔

مودی نے انتہائی منظم طریقے سے 2019 کے شہری (ترمیمی) ایکٹ پر احتجاج کو   دبایا جس نے پہلی بار مذہب کو ہندوستانی شہریت کا معیار بنایا۔ اس    ایکٹ  پر مسلمانوں کے خلاف متعصب ہونے کی وجہ سے بھی تنقید  ہوئی تھی۔

مودی نے حکومت کے خلاف بات کرنے والے  کارکنان اور ماہرین تعلیم کے خلاف بھی مسلسل کریک ڈاؤن کیا۔ اور یقینی طور پر حکومت کی طرف سے کسانوں کے احتجاج  کو ناکام کرنے کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں چھوڑی گئی تھی۔ مودی کے حامیوں نے انہیں خالصتانی   قرار دینے کی مہم چلائی۔ نیز  بی جے پی کے  وزیر اعلیٰ کے بیٹے کی گاڑی مبینہ طور پر احتجاج کرتے کسانوں پر چڑھا دی گئی تھی جس سے کئی کسان ہلاک ہو گئے۔وزیر داخلہ کا بیٹا اس وقت جیل میں ہے۔

بالآخر، کسانوں کے خلاف تمام حکومتی جارحیت بے نتیجہ رہی اور  کسانوں کا خون رنگ   لایا۔  مودی کو کسان کش قوانین واپس لینا پڑے۔ کسان جو اب احتجاج کر رہے ہیں، ان سے مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بہت سے وعدے کیے تھے۔ جن میں ان کی آمدنی دوگنا کرنے کا وعدہ سر فہرست ہے۔ مودی کا 2022 تک  کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کا وعدہ  بھی کھوکھلا ہی لگتا ہے، کیونکہ اس کے آثار ابھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتے ۔ اس کے برعکس، سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستانی کسانوں کی آمدنی میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ یہ اب 27 روپے (0.36 امریکی ڈالر) یومیہ رہ گئی ہے – جبکہ ان پر قرضوں کا بوجھ کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ اس وقت ملک میں ہر کسان اوسطاً تقریباً   فی کس چوہتر ہزار  بھارتی روپوں  

(996 امریکی ڈالر) کے قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔

مودی  کی پارٹی نے جب  زرعی قوانین منظور کیے تو انہیں   زرعی برادری کے مسائل کے حل کے طور  پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ حکومت نے ان قوانین کے ضمن میں  استدلال کیا کہ یہ قوانین بہت سے مسائل کو حل کریں گے جنہوں نے اس شعبے  کو  مسائل سے دوچار کر رکھا ہے۔ لیکن کسانوں ،  خاص طور پر پنجاب، ہریانہ، اور اتر پردیش کی بااثر ریاستوں میں رہنے  والے اس پر قائل نہ ہوئے۔  ان کا اسرار تھا کہ قوانین کے نتیجے میں نجی  سیکٹر کا  داخلہ زراعت میں ہوگا جس سے وہ اپنی روزی روٹی سے محروم ہو جائیں گے۔

کسانوں نے قانون کی مخالفت میں  اپنا کل زور لگا  دیا۔ ان کے شکوک و شبہات میں مزید اضافے کا باعث  وہ طریقہ تھا جس سے  حکمران جماعت نے پارلیمنٹ میں بغیر کسی بحث کے مجوزہ نئی قانون سازی کو مسلط کیا ۔

حکومت کو امید تھی کہ احتجاج بالآخرختم ہو جائے گا، لیکن کسان توقع سے کہیں زیادہ ثابت قدم نکلے۔ انہوں نے مہینوں تک دہلی کے مضافات میں کھلے آسمان تلے ڈیرے ڈالتے ہوئے حکومت کے  ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا۔ ان میں سے تقریباً 700 افراد احتجاج کے دوران مارے گئے، لیکن   انہوں نے  ہار نہ مانی۔   بالآخر، مودی کو جھکنا پڑا۔

اگر چہ، کسانوں کی ایک بہت بڑی برادری ذات پات میں تقسیم ہے ، اور انہیں ہمیشہ ایک بے ترتیب ووٹنگ بلاک سمجھا جاتا  رہا ہے۔ لیکن ان مظاہروں نے  بہت ہی  زبردست اتحاد پیدا کیا ۔ خاص طور پر مغربی اتر پردیش اور پنجاب میں  ۔

 بی جے پی انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کیے بغیر انتخابات کرانے کی متحمل  نہ ہو سکی۔ اتر پردیش  ، یعنی بھارت کی سب سے بڑی ریاست  کے انتخابات کو 2024 میں ہونے والے عام انتخابات کے سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اور واضح طور پر مودی  کسی قسم کا  چانس لینے کو تیار نہیں ہیں۔

مترجم: فرقان احمد

متعلقہ عنوانات