مودی سینسرشپ:ٹویٹر نے مودی حکومت پر کیس کیوں کیا؟
محسوس ہوتا ہے سماجی رابطے کے ایک بڑے پلیٹ فارم ٹویٹر کے ستارے آج کل کچھ زیادہ ہی گردش میں ہیں۔ ایک طرف تو اسے کئی ماہ سے دنیا کے امیر ترین آدمی سے نمٹنا پڑ رہا ہے، دوسری طرف اسے اپنی بڑی مارکیٹ بھارت سے عدالت میں سینگ پھنسانے پڑ گئے ہیں۔
مودی سرکار نے اک عرصے سے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے ایسے تمام پلیٹ فارمز کے ناک میں دم کر رکھا ہے جو عام عوام کو موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ہندتوا کا راگ الاپتی حکومت کے چہرے سے نقاب ہٹا دیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مودی سرکار بارہا ٹویٹر پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ اپنے پلیٹ فارم پر موجود مودی سرکار کے ناقدین کے اکاؤنٹس بین کرے اور ایسے ٹویٹس بھی ہٹائے جن میں مودی پر تنقید موجود ہو۔ ایسا نہیں تھا کہ ٹویٹر مودی سرکار کے سینسرشپ کے ہر حکم پر آزادی رائے کا علم بلند کر دیتا تھا، لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ ٹویٹر اچھے بچوں کی طرح سر تسلیم خم کر دیتا تھا۔ ٹویٹر کے حکام چوں چراں کیا کرتے تھے جس کا خمیازہ انہیں طرح طرح کی ہراسانی کی صورت میں بھگتنا پڑتا تھا۔ لیکن پانی سر سے اس وقت گزرا جب جون میں مودی سرکار کی آئی ٹی منسٹری نے ٹویٹر کو دھمکی دی کہ اگر اس نے حکومتی احکامات کی بجا آوری نہ کی تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس میں ان کے بھارت میں موجود حکام بالا کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی شامل ہے۔ اس سے پہلے بھی بھارتی پولیس ٹویٹر کے ملازمین کے خلاف بہانے بہانے سے تحقیقات کرتی رہی ہے۔ ٹویٹر نے پولیس کی ان تحقیقات کو خوف زدہ کرنے کے ہتھ کنڈے قرار دیتے ہوئے بھارت میں اپنے ملازمین کی حفاظت پر خدشات کا اظہار کیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جون میں بھارتی حکومت کی دھمکی کے دباؤ میں آتے ہوئے ٹویٹر حکام نے مودی حکومت اور ہندوتوا مخالف اکاؤنٹس کو معطل کیا اور ٹویٹس بھی ہٹائے، تاہم بھارتی حکام کے اس قسم کے احکامات کے خلاف وہ ریاست کرناٹکا کی ہائی کورٹ میں بھی چلے گئے۔ذرائع کے مطابق کمپنی کا خیال ہے کہ مودی سرکار کچھ اپنے ہی بنائے قوانین کے خلاف احکامات دے رہی ہے، جس سے آزادی رائے کے حقوق خطرے میں ہیں۔ پہلے پہل تو آئی ٹی منسٹری کی جانب سے اس پر کوئی رد عمل نہ دیا گیا لیکن کہتے ہیں کہ پھر ایک منسٹر راجیو چندیکر نے ٹویٹ کیا کہ بیرونی انٹرنیٹ پلیٹ فارمز کو بھارتی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کا حق ہے۔
ٹویٹر نے بھارتی حکام کے دباؤ میں آتے ہوئے جن صحافیوں، سیاستدانوں، انسانی حقوق کے علم برداروں اور این جی اوز وغیرہ کے اکاؤنٹس بند کیے یا ٹویٹس ہٹائے ، وہ مودی سرکار پر خاص طور پر کرونا کے مسئلے کو درست طریقے سے نہ سنبھال پانے، کسانوں کے احتجاج پر حکومتی رد عمل وغیرہ پر تنقید کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے مظالم پر بھی آواز اٹھاتے تھے۔ ایکسپرس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق ان میں صحافی رانا ایوب کے 2021 کے ٹویٹ، حزب اختلاف کانگرس پارٹی کے رہنماؤں کے اکاؤنٹس ، پاکستان سے متعلقہ سفارتی اکاؤنٹس، لندن سے مصنف فرید قریشی کا اکاؤنٹ اور کئی ایک ایسے اکاؤنٹس شامل تھے جو پچھلے سال ہونے والے کسان احتجاج پر بولتے تھے۔ صحافی محمد زبیر جنہوں نے بی جے پی کی رہنما کی گستاخی والی ویڈیو ٹویٹ پوسٹ کی تھی، کا اکاؤنٹ بھی سینسرشپ کی زد میں آیا تھا۔
بھارت کی اس وقت بر سر اقتدار پارٹی بی جے پی نے فروری 2021 میں کچھ ٹیکنالوجی سے متعلق ضوابط متعارف کروائے تھے۔ ان ضوابط پر صرف ٹویٹر نہیں بلکہ بہت سی ڈیجیٹل کمپنیوں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ضوابط عوام کی پرائیویسی ختم کریں گےاور ان پر جاسوسی کا سا ماحول قائم کریں گے، جس سے بڑھتے ہوئے ڈیجیٹل کاروبار کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان ضوابط میں بھارتی حکومت نے ٹیکنالوجی کمپنیز سے تقاضا کیا کہ وہ بھارت کے اندر اپنے خصوصی دفاتر بنائیں جو بھارتی حکومت کے احکامات کی بجاآوری کو یقینی بنائیں، اسی طرح ان سے یہ بھی تقاضا کیا گیا کہ وہ اپنے پلیٹ فارمز پر سے ایسی تصاویر اور پوسٹ ہٹائیں جن میں نیم یا مکمل عریانی موجود ہو۔ اسی طرح ضوابط کے مطابق ٹیک کمپنیوں کو اس شخص کی نشاندہی بھی کرنی ہوگی جو وہ پہلا شخص ہو جس نے سوشل میڈیا پر وہ مواد ڈالا جس پر مودی سرکار کو اعتراض ہو۔
آخری والے تقاضے پر پچھلے سال وٹس ایپ کو اعتراض ہوا تھا اور مئی میں اس کی پیرنٹ کمپنی میٹا عدالت میں گئی تھی۔ اس کی شکایت ابھی تک عدالت میں فیصلے کی منتظر ہے۔ اب ٹویٹر کے کیس کا کیا ہوتا ہے، یہ بھی آنے والا وقت ہی بتائے گا۔