مودی کے ہندوستان کی زمین کیسے مسلمانوں پر تنگ کی جارہی ہے؟

بھارت میں نریندا مودی کی حکومت میں ہندوتوا کا منترا عروج پر ہے اور مسلمانوں کے پیروں تلے زمین سرکتی جا رہی ہے۔ روز نئی اذیت ہوتی ہے، روز نیا تماشا ہوتا ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ جس دیس میں مسلمان صدیوں سے بس رہے ہیں، اسی میں انہیں غیر قانونی مہاجر قرار دیا جانے لگا ہے۔

حالیہ واقعات میں حکومتی آشیرواد سے  بھارت کے دارالحکومت دہلی سمیت دیگر جگہوں پر مسلمانوں کے گھر بلڈوزر سے مسمار کیےجا رہے ہیں۔  یہ وہی دہلی ہے جس کی اینٹ اینٹ  قطب الدین ایبک سے لے کر آخری مغل بادشاہ نے جوڑی تھی۔  آج اسی دلی میں مسلمانوں کے سر کی چھتیں ملیا میٹ ہو رہی ہیں  اور ان کاکوئی پرسان حال بھی نہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حالیہ تنازع دس اپریل کے دن شروع ہوا جب ہندو  اپنا مذہبی تہوار منا رہے تھے۔ ریاست مدھیا پردیش کے ایک علاقے میں ہندو جنونی گروہ ہاتھ میں طرح طرح کے ہتھیار اٹھائے نکلا۔ کہتے ہیں کہ مساجد کے آگے پہنچ کر  یہ گروہ اشتعال انگیز نعرے لگانے لگا۔ ان کا واحد مقصد مسلمانوں کو اشتعال دلانا تھا تاکہ ریاستی دہشت گردی کی وجہ تراشی جا سکے۔ جلد ہی ان  کی اشتعال انگیز حرکات نے ثمرات پیدا کر  دیے۔مسلمانوں میں سے ایک شخص نے اشتعال میں آ کر گروہ پر پتھر دے مارا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنگا شروع ہو گیا۔ آگے کا سکرپٹ وہی ہے جو بارہا دہرایا جا چکا ہے۔ پولیس نے دنگے روکنے کی آڑ میں مسلمانوں پر تشدد شروع کیا۔ بی جے پی کے ہندتوا کی آگ میں جلتے حکمرانوں نے اپنی طاقت دکھانے کے لیے دنگا کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کا اعلان کیا۔

ان اعلانات کے بعد بلڈوزر میدان میں آ گئے۔ پھر کیا تھا۔  برسوں سے  کھڑے مسلمانوں کے گھر، دکانیں اور دیگر عمارتیں گرائی جانے لگیں۔یہ  ایکشن صرف مدھیا پردیش تک محدود نہ رہا، گجرات، دہلی سمیت دیگر جگہوں تک پھیل گیا۔

بی جے پی کے رہنماؤں نے کہا کہ ہم کچھ غیر  قانونی  نہیں کر رہے۔ پولیس نے کہا ہم تو غیر قانونی تجاوزات ہٹا رہے ہیں۔ سب جانتے تھے کہ بات نہ تو قانون کی ہے اور نہ ناجائز تجاوزات ہٹانے کی۔ سزا ہے بس۔ طاقت کا نشہ ہے بس۔ نفرت کی آگ ہے بس۔  رخ چودہ فیصد مسلمانوں کی طرف ہے۔

ہندوتوا کی لپیٹ میں صرف یہ گھر نہیں ہیں۔ کچھ دن پہلے مسلمانوں کو ہندو مندروں کے گرد ونواح میں  تجارت سے روکا گیا تھا۔ اس سے پہلے کرناٹکا میں مسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی لگانے کی عدالتی اجازت ملی تھی۔ اسی دوران مسلمانوں کے حلال کھانے کی خرید و فروخت کے خلاف بھی نفرت انگیز مہم سامنے آئی تھی۔  اس سے پہلے کئی جگہ گائے کی قربانی کرنے پر بھی پابندی لگی تھی۔ متنازعہ شہری قانون بھی سامنے آیا تھا۔ بہت کچھ ہوا تھا اور بہت کچھ ہو رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ روکے گا کون؟ بھارت میں یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا نات جیسے متعصب، سفاک اور شاطر رہنما تو  اسی فیصد ہندو آبادی میں قبولیت پا رہے ہیں۔ ان کے بلڈوزر جیسے اقدامات پر تو ان کے اندھے پیروکار تالیاں بجا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے جگہ سکڑتی جا رہی ہے۔

متعلقہ عنوانات