بھگوان

بیٹھا تھا آکاش پر
تو آنکھوں سے دور
لیکن اپنا من تھا تیری شردھا سے بھرپور
آنکھوں میں پرکاش تھا تیرا
من میں تھا تھا یہ گیان
کرم ککرم کو دیکھتا ہے میرا بھگوان
تو مندر میں آن براجا
پہن کے ہیرے موتی
دوار دھنش کی اوٹ میں آ گئی تیری جوتی
مہلوک داس پجاری پروہت
پنڈت اور ودوان
دینے لگے یہ گیان
ان کے چرنوں کو چھونے سے ملتے ہیں بھگوان
آرتی پوجا
رس لیلائیں
دیوداسیاں گائیں
ہری ہری ہر ہری ہری ہر جے وشنو بھگوان
تو ہے ناتھ اناتھ کا اور نربل کے پران
جے تیری بھگوان
راگ رنگ اور بھینٹ بھوگ کے موہ نے تجھ کو رجھایا
رس لیلا کے پھیر میں تجھ کو لے آیا انسان
اے میرے بھگوان


تو مندر میں بیٹھ رہا ہے پہن کے ہیرے موتی
میں حیران ہوں اس پر تجھ کو الجھن کیوں نہیں ہوتی
توڑ پھوڑ کر دوار دھنش سب کر دے ایک سمان
من مندر میں بس نہ سکے تو مت کہلا بھگوان