بھئے کبیر اداس

اک پٹری پر سردی میں اپنی تقدیر کو روئے
دوجا زلفوں کی چھاؤں میں سکھ کی سیج پہ سوئے
راج سنگھاسن پر اک بیٹھا اور اک اس کا داس
بھئے کبیر اداس
اونچے اونچے ایوانوں میں مورکھ حکم چلائیں
قدم قدم پر اس نگری میں پنڈت دھکے کھائیں
دھرتی پر بھگوان بنے ہیں دھن ہے جن کے پاس
بھئے کبیر اداس
گیت لکھائیں پیسے نا دیں فلم نگر کے لوگ
ان کے گھر باجے شہنائی لیکھک کے گھر سوگ
گائک سر میں کیوں کر گائے کیوں نا کاٹے گھاس
بھئے کبیر اداس
کل تک تھا جو حال ہمارا حال وہی ہے آج
جالبؔ اپنے دیس میں سکھ کا کال وہی ہے آج
پھر بھی موچی گیٹ پہ لیڈر روز کریں بکواس
بھئے کبیر اداس