بھڑک اٹھا ہے الاؤ تمہاری فرقت کا

بھڑک اٹھا ہے الاؤ تمہاری فرقت کا
نہیں ہے تم پہ اثر پھر بھی کیوں محبت کا


معانی ہی تو نہیں کیا بدل گئے اس کے
وفا کو نام جو دیتے ہو تم اذیت کا


تمہی بتاؤ مرے ہو گے اور کیسے تم
علاج عجز بھی نکلا نہیں رعونت کا


کسی کو پا لیا تم نے تو چھوڑ کر مجھ کو
کوئی علاج تو کر دو مری بھی حسرت کا