بے وفا کہئے با وفا کہئے
بے وفا کہئے با وفا کہئے
دل میں آئے جو برملا کہئے
ان کے ظلم و ستم کا کیا شکوہ
حسن کی شوخیٔ ادا کہئے
دے دیا دل کسی ستم گر کو
آپ چاہے اسے خطا کہئے
ہر خوشی کا نکھار ہے اس میں
لذت غم کو اور کیا کہئے
دل کبھی اس کو مانتا ہی نہیں
آپ خود کو نہ بے وفا کہئے
اپنے دامن کی کچھ خبر ہے مجیدؔ
سوچ کر خود کو پارسا کہئے