پاکستان کے امتحانی بورڈز کا موازنہ: آغاخان،کیمبرج اور سرکاری بورڈ
کسی بھی ملک کے تعلیمی نظام میں امتحانوں کا طریقہء کار اور ان کا معیار بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پاکستان میں تین قسم کے امتحانی نظام رائج ہیں
:سرکاری بورڈ،آغا خان بورڈ اور کیمبرج سسٹم۔ان کے علاوہ انٹرنیشنل بیکلاریٹ بھی موجود ہے مگر بہت محدود پیمانے پر۔ اس موازنے میں اسے شامل نہیں کیا جارہا۔
آئیے ان تین امتحانی نظاموں کا موازنہ کرتے ہیں:
سرکاری امتحانی بورڈ
سرکاری امتحانی بورڈ جسے ہم عرف عام میں میٹرک سسٹم کہتے ہیں اس کے مسائل دیرینہ، گہرے اور پیچیدہ ہیں۔ان میں امتحانی سلیبس اور پرچہ سازی کے نقائص،امتحانی مراکز کے بے قابو حالات،پرچوں کی جانچ کا اور نتائج کا ناقابل اعتبار ہونا شامل ہیں۔ ان میں سب سے اہم اور سخت نقصان دہ مسئلہ ہوش ربا بد عنوانی کا ہے جس میں حکومتی عہدیداروں کی سرپرستی میں مختلف قسم کی مافیاز امتحانی مراکز کی خرید و فروخت میں اور امتحانی نتائج کو حسب خواہ تبدیل کرنے میں ملوث ہوتی ہیں۔ان مسائل کی وجہ سے لائق، ذہین اور محنتی طلبہ کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔بدعنوانی کے علاوہ بھی امتحان کے طریقہء کار کی بنیادی خامیوں کی وجہ سے طلبہ کی ذہانت کی بجائے ان کی قوت حافظہ کی جانچ ہوتی ہے۔اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ باقی امتحانی بورڈز کے مقابلے میں کم خرچ ہوتا ہے۔
آغا خان امتحانی بورڈ
آغا خان امتحانی بورڈ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ امتحانی سلیبس اور پرچہ سازی کے لیے وہی پاکستانی قومی نصاب استعمال کرتا ہے جو میٹرک بورڈ کرتے ہیں۔لیکن اسی نصاب کے مطابق جدید طرز کے امتحانی پرچے بنتے ہیں، امتحانی مراکز پر دھاندلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور پرچوں کی جانچ اور نتائج مرتب کرنے کے طریقے شفاف ہوتے ہیں۔امتحانی پرچوں کا طریقہ او لیول کے معیارکے قریب ہوتاہے مگر قومی نصاب کی حدودکے اندر رہنے کی وجہ سے اولیول کے امتحان کے مقابلے میں ایک آدھ انچ پیچھے رہتا ہے۔کچھ مضامین میں بہتر بھی ہوتا ہے۔ آگے چل کر یونیورسٹیوں اور میڈیکل اور انجینیئرنگ کالجوں میں جا کر اس سسٹم کے طلبہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کا برابر کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔جب کہ یہ بارہ جماعتیں پڑھ کر یونیورسٹی پہنچتے ہیں اور اے لیول کے طلبہ تیرہ سال پڑھ کر وہاں پہنچتے ہیں۔بیرون ملک جا کر بھی یہ طلبہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ کے ہم پلّہ ثابت ہوتے ہیں۔اس سسٹم کی امتحانی فیس میٹرک سسٹم سے زیادہ ہوتی ہے مگر کیمبرج سسٹم سے بہت کم۔
کیمبرج امتحانی نظام
کیمبرج سسٹم اسکول تو اصل میں تو دسویں اور گیارہویں جماعتوں کے امتحانات کی تیاری کرانے کی ذمہ داری پوری کرتے ہیں ۔ لیکن ابتدا ہی سے مہنگی کتابیں،اور طرح طرح کے مہنگے مطالبات کا ماحول بناتے ہیں۔ کہیں کہیں( تقریبا" 15 تا 20 فیصد) اسکول بچوں کو انگریزی بولنے کی عادت ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اور بڑےسسٹمز میں یہ معاملہ اسکول کی شاخوں کے حساب سے مختلف ہوتا ہے۔اکثر اسکولوں میں بچے والدین کی اس خواہش کو پورا نہیں کر پاتے کہ وہ فر فر انگریزی بولیں۔یہ اسکول زیادہ فیس لینے کی وجہ سے زیادہ تنخواہوں پر اساتذہ اور پرنسپل بھرتی کرتے ہیں جو ظاہر ہے کہ اسی بنا پر بالعموم دوسرے اسکولوں سے اپنی قابلیت اور تدریسی قابلیت میں قدرے بہتر ہوتے ہیں۔ان کی تدریس میں بھی بنیادی فرق امتحانی طریقہ کار کی وجہ سے آتا ہے۔یعنی ایک بنیادی طور پر قابل استاد اگر میٹرک کے امتحان کی تیاری کراتا ہے تو اس کی تدریس کا انداز خود بخود پیچھے کی طرف چلے جائے گا۔وہی استاد جب آغا خان بورڈ یا کیمبرج سسٹم کے اسکول میں آتا ہےتو اس کا انداز بھی بدل جاتا ہے۔آغا خان بورڈ اور کیمبرج سسٹم کے اسکول اپنے اساتذہ اور منتظمین کی ٹریننگ پر بھی کافی توجہ دیتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہ ہے اور دکھ کی بات ہے کہ کیمبرج سسٹم متوسط طبقے کے والدین کے لیے ایک بہت مہنگا نسخہ ہے۔اسکول کی فیس کے علاوہ والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو مہنگی پرائیویٹ ٹیوشن بھی دلوانے کی کوشش کرتی ہے۔یہاں والدین کی خاصی بڑی تعداد طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہے۔ وزرا، بڑے سیاسی رہنما، فوجی افسران،سرکاری افسران اور کاروباری شخصیات کے بچے ان اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ اس کی وجہ سے پرنسپل اور اساتذہ مسلسل دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ طلبہ کی بد تمیزی اور بد اخلاقی کو برداشت کرنا ان کی مجبوری ہوتا ہے۔جب کے اسکول کے بورڈ آف گورنرز یا مالکان کی طرف سے اچھے نتائج کی توقعات بھی اس بوجھ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کیمبرج سسٹم کے طلبہ جب مقامی کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں تو ایک سال پیچھے ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ او لیول گیارہویں جماعت پر مکمل ہوتا ہے اور اے لیول تیرہویں جماعت پر۔اس طرح والدین کو ایک اضافی سال کی فیسیں ادا کرنی پڑتی ہیں۔
کون سا امتحانی نظام بہترین ہے؟
تو یہ تھا ایک موازنہ سرکاری بورڈ، آغا خان بورڈ اور کیمبرج سسٹم بورڈ کا۔ اب نتیجہ قارئین خود ہی اخذ کر سکتے ہیں۔
میں خود، ہمارے تمام بہن بھائی، دوست احباب اور میرے خیال میں مڈل کلاس کی اکثریت میٹرک سسٹم کی پیداور ہیں۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔
میٹرک سسٹم اچھا تھا اور میٹرک سسٹم بھی اچھا ہے میں بہت فرق ہے۔
جب ایک ہی سسٹم تھا تو شہر کے اعلی ترین اساتذہ اور بہترین ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ اسکولوں ہی میں ملتے تھے۔ تھوڑے سے بھی پڑھ لکھ جانے والے بچوں اور نوجوانوں میں مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ کوئی استاد پیسے دے کر ٹیوشن پڑھانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ بڑی جماعتوں میں نصاب کے تقاضے( خاص طور سے ریاضی اور سائنسی علوم میں) بہت مختصر تھے۔امتحانی نظام میں کرپشن اک جنس نایاب نہ سہی جنس کمیاب ضرور تھی۔
ایک اہم ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ ہم اس وقت "تعلیمی نظام"بحیثیت مجموعی کی بجائے صرف "امتحانی نظام" کی بات کریں تو زیادہ بہتر تجزیہ ہو سکے گا۔ اس پر ہم اگلی قسط میں بات کریں گے۔