برمودا ٹرائی اینگل کا معما حل؛ کیا ،کیوں اور کیسے؟
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایک سائنسدان نے دنیا بھر کے مختلف مقامات پر ہوائی اور بحری ٹریفک کے ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہوئے اور وہاں حادثات کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئےبرمودا ٹرائی اینگل کے معمے کو حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔برمودا ٹرئی اینگل کیا ہے؟ اس کا معما حل کیوں نہیں ہورہا ہے؟ کیا اس کے پیچھے شیطانی قوتیں ہیں؟ اب کتنے جہاز اس میں غرق ہوچکے ہیں؟آئیے جانتے ہیں کہ برمودا ٹرائی اینگل سے متعلق اب تک کی تحقیق میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ، برمودا ٹراینگل کے بارے میں تفصیلی معلومات جاننے کے لیے یہ مکمل تحریر پڑھیے:
انسانی علم اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ دنیا سمٹ کر گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ انسان کا خیال ہے کہ وہ شاید کائنات کو کافی حد تک سمجھ چکا ہے۔ لیکن شاید کائنات میں ابھی بہت سے ایسے راز موجود ہیں، جن سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ ایسا ہی ایک راز "برمودا تکون" (Bermuda Triangle) ہے۔ اس راز کو سمجھنے میں ابھی تک انسان ناکام رہا ہے۔
برمودا ،بحر اوقیانوس کے جنوبی حصے میں واقع ایک علاقہ ہے۔ یہ علاقہ، جس میں واقع جزائر مجموعی طور پر ایک تکون بناتے ہیں، اپنی پراسراریت کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس علاقے سے گزرنے والے اکثر بحری جہاز اور ہوائی جہاز اپنے عملے سمیت پر اسرار طور پر غائب ہو جاتے ہیں اور پھر ان کا کوئی نام و نشان تک نہیں ملتا۔
برمودا تکون کی پُراسراریت
برمودا جزائر کے علاقے میں گزشتہ سو سالوں کے دوران میں بحری اور ہوائی جہازوں کے چند ایسے حادثات رونما ہوئے ہیں، جن کا سبب معلوم نہ ہو سکا۔ تاہم 1950 کے عشرے میں بعض اخبارات میں ان واقعات کی پر اسراریت کے حوالے سے مضامین شائع ہوئے۔ یوں اخبارات کو ایک اچھا موضوع ہاتھ آ گیا۔ اس علاقے کو پہلے "برمودا ٹرائی اینگل" اور پھر "ڈیولز ٹرائی اینگل" (Devil’s Triangle) کا نام دے کر اس سے پر اسراریت کو منسلک کر دیا گیا۔ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ گویا یہ ایک الگ تھلگ علاقہ ہے اور کوئی بھولا بھٹکا جہاز اگر غلطی سے ادھر جا نکلے تو اس کی قسمت میں تباہی اور لا پتہ ہونا لکھا ہوتا ہے۔
برمودا ٹرائی اینگل کی افسانوی داستان کا آغاز 1964 میں ہوا جب ونسنٹ گیڈیس نے ارگوسی میگزین کے لیے ایک مضمون لکھا۔1974 میں شائع ہونے والی چارلس برلٹز کی بیسٹ سیلر کتاب "دی برمودا ٹرائی اینگل" اور رچرڈ ونر کی " دا ڈیولزٹرائی اینگل" نے اس کی پراسراریت کو مزید بڑھا دیا اور سنسی خیز مواد کی خواہش مند عوام میں ان کی دو کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ لیونارڈ نموئے نے 1977 میں ٹی وی سیریز "اِن سرچ آف برمودا" میں بھی برمودا ٹرائی اینگل پر خوب بحث کی۔
برمودا مثلث کا محل وقوع
برمودا ٹرائی اینگل کو دنیا کے نقشے پر ، بحر اوقیانوس میں ایک خالی تکون کی شکل میں واضح کیا جاتا ہے۔ اس مثلث کا ایک کونہ امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر میامی میں واقع ہے۔ دوسرا کونہ پیور ٹو ریکو نامی جزیرے پر اور تیسرا کونہ برمودا کے مقام پر واقع ہے۔
اس علاقے میں بے شمار چیزیں اس طرح غائب ہوئی ہیں کہ ان کی وضاحت نہیں کی جا سکتی، کیونکہ کسی قسم کا کوئی ایسا ثبوت ہی نہیں ملتا جس کو بنیاد بنا کر تحقیقات کی جا سکیں۔
برمودا تکون میں گم شدہ جہازوں کی تفصیل
اس علاقے میں اب تک جو بڑےبحری اور ہوائی جہاز گم ہوئے ہیں، ان کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے۔
1۔ یو ایس ایس سائیکلوپس : مارچ 1918 میں ایک بڑا مال بردار بحری جہاز ، جس پر کوئلہ لدا ہوا تھا، بحر اوقیانوس میں برمودا کے مقام پر غائب ہو گیا۔ 109 افراد کے عملے پر مشتمل یہ جہاز باربادوس سے ورجینیا کی طرف نیوی کے لیے کوئلہ لے کر جا رہا تھا۔ جہاز کی تلاش میں ہزاروں میل تک سمندر چھان مارا گیا، مگر اس کا کوئی نام و نشان نہیں ملا۔ اس وقت امریکہ اور جرمنی کی جنگ بھی شروع ہو چکی تھی اور عام تاثر یہی تھا کہ شاید اس جہاز کو "تارپیڈو" سے اڑا دیا گیا ہے اور وہ جنگی تخریب کاری کا نشانہ بن گیا ہے، مگر اس تباہ شدہ جہاز کا کوئی نشان بھی نہیں ملا۔
2۔ فلائٹ ۔19: جنوری 1945 میں امریکی نیوی کے پانچ بمبار طیارے برمودا تکون پر غائب ہو گئے۔ جب کنٹرول ٹاور کو ان طیاروں کی طرف سے خطرے کا آخری پیغام موصول ہوا تو اس کے فورا بعد نیوی کا ایک بڑا جہاز ان پانچ بمبار جہازوں کی تلاش کے لیے بھیجا گیا اور آخری پیغام سے سمت کا اندازہ کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچا جہاں تھوڑی دیر پہلے پانچ جہاز برمودا کا لقمہ بنے تھے۔ چند ہی گھنٹوں میں نیوی کا یہ جہاز بھی غائب ہو گیا۔ ان چھ جہازوں کا کوئی ملبہ بھی آج تک نہیں مل سکا۔
3۔ میرین سلفر کوئین: فروی 1963 میں میرین سلفر کوئین نامی بحری جہاز برمودا کے علاقے سے گزر رہا تھا۔ اس پر سلفر لدی ہوئی تھی اور عملے کی بڑی تعداد اس پر سوا رتھی۔ جب جہاز برمودا کے مقام پر پہنچا تو کنٹرول ٹاور سے اس کا رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس علاقے سے کچھ لائف جیکٹس تو ملیں لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اس بدقسمت جہاز کے مسافروں کی تھیں۔ کچھ لوگوں نے خیال ظاہر کیا کہ جہاز پر لدے سلفر میں دھماکہ ہو گیا ہو جس کے باعث وہ ٹینکر تباہ ہو گیا ہو گا لیکن ا س کے ملبے کا بھی کوئی نشان نہ ملا۔
ان کے علاوہ سینکڑوں چھوٹے بڑے ہوائی اور بحری جہاز اس علاقے میں گم ہوئے ہیں جن کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل سکا۔
برمودا کی پُراسراریت کے متعلق مختلف نظریات
برمودا تکون کی پراسراریت کو سمجھنے کے لیے مختلف توجیہات پیش کی جاتی رہی ہیں۔ بہت سے افسانے اور کہانیاں بھی گھڑی جاتی رہی ہیں اور اسے مختلف نام بھی دئیے گئے۔ ان میں سے کچھ نظریات یہ ہیں۔
جہنم کا راستہ (Gate to Hell)
یہ برمودا کے بارے میں سب سے پرانا خیال ہے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ برمودا تکون دراصل جہنم میں جانے کا راستہ ہے۔ جن لوگوں نے بہت گناہ کیے ہوتے ہیں ، وہ برمودا تکون کی کشش سے سیدھے جہنم رسید ہو جاتے ہیں۔
یو ایف اوز (UFOs: Unidentified Flying Objects)
آسمان پر اڑتی کسی بھی مبہم چیز کو عام طور پر "یو ایف اوز" کا نام دے دیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ایسی اڑنے والی چیز جس کی پہچان نہ ہو سکے۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب یو ایف اوز کا تصور عام ہوا تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ خلائی مخلوق کا بھی وجود ہے جو دنیا کی مخلوق کی دشمن ہے اور کسی نہ کسی طرح انسانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتی ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ برمودا تکون ایسا مقام ہو، جہاں سےخلائی مخلوق ہماری چیزوں کو اور انسانوں کو اٹھا کو تجربات کرنے کے لیے اپنے سیارے پر لے جاتی ہو۔ اس لیے بعد میں ان چیزوں کا کوئی نام و نشان تک نہیں ملتا۔
سمندری بلائیں (Sea Monsters)
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ برمودا تکون میں ایسی سمندری بلائیں رہتی ہیں جو یہاں سے گزرنے والے جہازوں کو تباہ کر دیتی ہیں اور پھر اپنے علاقے میں لے جاتی ہیں۔ یہ بھی ایک پرانا خیال ہے۔
وقت کی پراسرار جہت کی موجودگی
اس تصور کے مطابق، جو جہاز برمودا تکون سے گزرتے ہیں، وہ یہاں سے غائب ہو کر ماضی یا مستقبل میں چلے جاتے ہیں کیونکہ اس مقام پر وقت کی جہت میں ایک زبردست "بل" (wrap) پایا جاتا ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر یہ تصور مان لیا جائے تو پھر ان جہازوں کے ماضی میں جانے کا امکان زیادہ ہے۔
مقناطیسی نظریہ
اس نظرئیے کے مطابق، برمودا کے مقام پر ایک ایسی مقناطیسی قوت موجود ہے، جو وہاں سے گزرنے والے جہازوں کو کھینچ لیتی ہے اور وہ وہاں سے نکل نہیں پاتے۔
پوشیدہ سرنگیں (Worm Holes)
اس نظرئیے کے مطابق، برمودا کے مقام پر ایسی پر اسرار سرنگیں موجود ہیں جو کائنات میں ایک جگہ سے شروع ہوتی ہیں اور دوسری جگہ جا کر نکلتی ہیں۔ اس سرنگ سے گزر کر ہمارے جہاز کائنات کے کسی دوسرے حصے میں پہنچ جاتے ہیں، اس لیے پیچھے ان کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہتا۔
گیس کا نظریہ
یہ نظریہ سب سے بہتر اور سائنسی نقطہ نظر سے قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ ایک ایسی گیس ہے جو دیگر اشیا کی نسبت بلند درجہ حرارت پر جمنے اور جما دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اس نظرئیے کے مطابق، برمودا تکون پر ایسی ہی کوئی گیس وافر مقدار میں موجود ہے ۔ جب کوئی جہاز وہاں سے گزرتا ہے تو یہ گیس اس کے نچلے حصے پر جم جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بھاری ہو کر ڈوب جاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئی ہوائی جہاز وہاں سے گزرتا ہے تو اس کے انجن سے بھی گیس خارج ہوتی ہے جو اس کی تباہی کا باعث بن جاتی ہے۔ اس گیس کے نظرئیے کو ہی اب تک قدرے سائنسی سمجھا جاتا ہے۔
تازہ ترین سائنسی نظریہ
اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ برمودا تکون کے بارے میں پیش کردہ پراسراریت محض افسانوی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ علاقہ بحری اور ہوائی ٹریفک ، دونوں کے لحاظ سے انتہائی مصروف ہے اور سنجیدہ تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس علاقے میں حادثات کی تعداد ٹریفک کی مناسبت سے غیر معمولی نہیں ہے۔
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایک سائنسدان نے بھی دنیا بھر کے مختلف مقامات پر ہوائی اور بحری ٹریفک کے ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہوئے اور وہاں حادثات کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئےاس معمے کو حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔سڈنی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کارل کروزیلنکی (Karl Kruszelnicki) کے مطابق، برمودا ٹرائی اینگل پر طیاروں اور کشتیوں کا غائب ہونا دراصل خراب موسم اور انسانی غلطی کا نتیجہ ہےاور اس میں کسی مافوق الفطرت وجوہات کا کوئی دخل نہیں ہے کہ جن پر لوگوں کی اکثریت یقین کرنا پسند کرتی ہے۔ڈاکٹر کارل کے مطابق یہ علاقہ خط استوا کے قریب ہے جس کی وجہ سے یہاں موسمیاتی کیفیات قدرے شدید ہوتی ہیں اوریہاں بعض اوقات پانچ میٹر اونچی لہریں بھی دیکھی گئی ہیں ۔اس کے علاوہ یہاں بحری اور فضائی ٹریفک بھی خاصی زیادہ ہے ۔ان کے مطابق ،ایسے کسی بھی مصروف ٹریفک والے علاقے میں حادثات کی شرح تقریباَ اتنی ہی ہوتی ہے۔ یہاں قدرے زیادہ حادثات کو محض اتفاق کہا جا سکتا ہےاور زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس علاقے میں حادثات کی تعداد نسبتاََ زیادہ ہے جن کی ہمارے پاس فی الحال کوئی معقول توجیہہ نہیں ہے۔ اس طرح انھوں نے برمودا ٹرائی اینگل سے متعلق کسی قسم کے شیطانی، پراسرار اور غیر حقیقی نظریات کی مکمل نفی کرتے ہوئے اسے ایک عام علاقہ قرار دیا ہے۔