بیسویں صدی کی ادبی تحریکیں
بیسویں صدی کے طلوع سے پہلے سرسیداحمدخا ں کی تحریک نے ایک ثانوی ادبی تحریک کو بھی جنم دیا جس کے ساتھ مولانا حالی، شبلی، محمدحسین آزاد، اسمٰعیل میرٹھی، نذیراحمد اور بعض دوسرے اکابرین کے نام وابستہ تھے۔ اس تحریک کو اصلاحی تحریک کا نام بھی دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اصلاح کو محض اخلاقیات تک محدود نہ سمجھا جائے بلکہ اس میں پیروی مغربی کے ساتھ ساتھ سماجی انجماد کو دور کرنے کی کاوش اور اسلام کے دور زریں سے ہم رشتہ ہونے کے میلان کو بھی شامل کرلیا جائے۔
مراد یہ کہ سرسید کی ادبی تحریک ایک طرف مغربی علوم سے استفادہ کی تلقین کرتی تھی اور اس سلسلے میں مغرب کی جدید اصناف تک کو قبول کرنے پر مائل تھی اور دوسری طرف اسلام کے عہد زریں کی سادگی، سخت کوشی اور گرم جوشی کو حرزجان بنانے پر زوردیتی تھی تاکہ ہندی مسلمان رسوم کی سنگلاخیت کو ترک کرکے اپنے حجروں سے باہر آئیں اور حقائق کے آگے سینہ سپر ہوں۔ گویا اس تحریک پر حقیقت پسندی کا میلان غالب اور ثقافتی بوجھ (جس کا مظہرآرائشی اسلوب تھا) سے سبک بار ہونے کی روش نمایاں تھی۔ اپنے زمانے میں اس تحریک نے مسلمانوں پر نہایت گہرے اثرات مرتب کیے اور انہیں کونوں کھدروں سے باہر نکال کر قومی سطح پر فعال اور شخصی سطح پر مستعد بنایا۔ اسی لیے اس تحریک کے تحت پیدا ہونے والے ادب میں اصلاح کا جذبہ نہایت قوی تھا۔
بیسویں صدی کے طلوع ہوتے ہی سرسیداحمدخاں کی اس ادبی تحریک کو ایک ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوا یہ کہ اسی دوران میں سارا ہندوستان سیاسی طورپر فعال ہوگیا۔ کانگریس اور مسلم لیگ ایسے سیاسی ادارے میدان میں اتر آئے اور انگریزوں کی غلامی سے نجات پانے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ یورپ میں پہلی جنگ عظیم لڑی گئی جس نے انسانی اقدار کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ علوم کی ترقی نے انسان کے سارے تیقن کو پارہ پارہ کردیا اور اسے محسوس ہونے لگا کہ وہ مرکز کائنات نہیں بلکہ وسیع بیکراں کائنات میں ایک نہایت غیراہم بلکہ نظر تک نہ آنے والے سیارہ کا باسی ہے۔ مزیدبرآں اس کے ہاں یہ خیال بھی راسخ ہونے لگا کہ وہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں ایسی کیفیت کی زد پر ہے۔
قدرتی بات ہے کہ اس احساس نے اس کے تیقن اورخوداعتمادی کو سخت دھچکا پہنچایا اور اسے محسوس ہونے لگا کہ ماحول کے ساتھ اس کا رشتہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ جب وہ بنیاد ہی لرزہ براندام ہوجس پر معاشرے کی عمارت کھڑی ہے تو انسان قدرتی طورپر متخیلہ کو بروئے ے کار لاتا ہے تاکہ ایک بہتر اور خوب تر جہان کا نظارہ کرسکے۔ ایک ایسا جہان جوپرانے جہان کے اسقام سے پاک ہو۔ لہٰذا ایک خیالی جنت یایوٹوپیا کا تصور جنم لیتا ہے۔
بیسویں صدی کے اس ابتدائی دور میں اردوادب میں رومانی تحریک نے جنم لیا جو ایک طرف توسرسید کی تحریک کا ردعمل تھی اور دوسری طرف ایک نئے جہان کی دریافت پر مائل تھی۔ سجادحیدریلدرم، نیازفتح پوری اور بعض دوسرے لکھنے والے اس رومانی تحریک ہی کے نمائندے تھے۔ ان سب کے ہاں اسلوب آرائشی مگر متخیلہ طاقت اور ایک جہان نو کی تلاش کا جذبہ صادق ہے۔ یہ سب اپنے ماحول سے برگشتہ اور نئے ماحول کو وجود میں لانے کے آرزومند تھے۔ تاہم بنیادی طورپر وہ سب خواب کار تھے۔ یعنی جاگرت کے خوابوں کے باسی تھے اور حقیقت کی دنیا سے آنکھیں چراکر تخیل کی دھند میں سے آنے والے زمانے کو دیکھنے اور ایک ان سنی اجنبی چاپ کو سننے پر مائل تھے۔
ویسے بھی اس دور کا ہندوستان سیاسی سطح پر بیدار ہورہا تھا اورسیاسی بیداری کے تحت عوام میں جذباتی ردعمل پیدا ہونے لگا تھا۔ پرسکون ماحول میں فرد کوئی قدم اٹھانے سے پہلے نتائج و عواقب کے بارے میں سوچ لیتا ہے لیکن جذباتی فشار کی حالت میں وہ انتہاپسندی کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے۔ یہی کچھ اردوادب کے اس رومانی تحریک کے علم برداروں نے کیا کہ حقیقت پسندی کے رجحان کو ترک کرکے ایک خواب ناک ماحول سے خودکو ہم رشتہ کرلیا اور انتہاپسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ایسے جہان کے باسی بن گئے جو ابھی معرض وجود ہی میں نہیں آیا تھا۔
لیکن اقبالؔ نے فرد کو ’’احمقوں کی جنت‘‘ سے باہر نکالا اور اسے ایک ایسے نئے فکری اسلوب سے آشنا کیا جونہ تو مغربی افکار کی خوشہ چینی کا عمل تھا نہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی کیفیت سے سرشار تھا اورنہ جس کی اساس ایک خیالی دنیا ہی پر استوار تھی۔ لہٰذا اردوادب کی تحریکوں میں ’’اقبال کی تحریک‘‘ کوبطور خاص بڑی اہمیت حاصل ہے کہ یہ تحریک مزاجاً سرسید کی تحریک سے اثرات قبول کرنے کے باوصف اس سے بھی مختلف تھی اور رومانی تحریک سے بھی۔ بے شک اقبال کے افکار میں نطشے کے فوق البشر کا تصور اور برگساں کے ELAN VITAL کا نظریہ ایک زیریں لہر کے طورپر شامل ہوگیا تھا لیکن جہاں تک مغربی تہذیب کا تعلق ہے، اقبال اس سے ہرگز مرعوب نہ ہوئے تھے جیسے کہ سرسید اورمولانا حالیؔ ہوگئے تھے۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ سرسید نے مغربی تہذیب کو ایک بالکل سرسری نگاہ سے دیکھا تھا اور حالیؔ نے سرسید کی نگاہوں سے اس کی ایک جھلک پائی تھی۔ مگر اقبالؔ کی طرح ان لوگوں نے نہایت قریب سے مغربی تہذیب کی عمارت کو لرزتے اورٹوٹتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس نظارے نے اقبال کے ہاں خوداعتمادی پیدا کی اور وہ مغرب کی عام روش سے ہٹ کر اپنے لیے ایک نئی راہ تراشنے پر مائل ہوئے۔
اس نئے فکری اسلوب میں اقبالؔ نے اولاً سخت کوشی کی ضرورت پر زور دیا۔ ثانیاً مسلمانوں کے دور زریں سے وہ مثالیں فراہم کیں جو اس سخت کوشی کی اصل ماہیت کو بیان کرنے کے لیے بہت مفید تھیں۔ ثالثاً انہوں نے لہجے کی انفعالیت ترک کرکے ایک بلند آہنگ اور گمبھیر لہجہ اختیار کیا۔ رابعاً اسالیب بیان میں ایک طرح نو کا اہتمام اس طور کیا کہ پٹی ہوئی اورپامال لفظی تراکیب، بندشیں، استعارے اور تشبیہیں ازخود متروک ہوگئیں اوران کی جگہ لفظ کو ایک نئے تخلیقی رنگ میں استعمال کرنے کا رویہ پیدا ہوگیا۔ خامساً اقبال نے اردو ادب کو طوائف کے کوٹھے اور دربار کی گھٹی ہوئی اورمتعفن فضا سے نجات دلاکر اس میں ایک انوکھی فکری گہرائی سمودی۔ نیز ادب کے دامن کو اس قدر وسیع کردیا کہ اس میں متعدد علوم سے اخذکردہ افکار ایک فطری انداز میں جذب ہوتے چلے گئے۔ گویا ایک فکری پھیلاؤ اقبال کی تحریک کا سب سے بڑا ثمر تھا اور دراصل اسی ایک عنصر نے اقبال کے بعد ابھرنے والی تحریکوں کو متعدد سمتوں سے متاثر کیا اورآج تک کر رہا ہے۔
ویسے یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اقبال کے بعداردو ادب دراصل ایک بڑے ادبی طوفان سے آشنا ہوا ہے، جس کا نام ’’جدیدیت کی تحریک‘‘ ہے۔ مگر خودجدیدیت کی تحریک وقت کے ساتھ ساتھ متعدد ثانوی تحریکوں میں منقسم ہوتی چلی گئی ہے۔ مثلاً ترقی پسندی کی تحریک ارضی ثقافتی تحریک، نوترقی پسندی کی تحریک وغیرہ۔ اس سے قبل کہ ان مختلف ثانوی تحریکوں کا ذکر کیا جائے، جدیدیت کے خدوخال کونمایاں کرنا ضروری ہے۔
جدیدیت کا زمانہ دراصل ایک خلا کا دورہوتا ہے۔ یعنی اس میں اقدار وآداب کی سابقہ روایت کے خاتمے کے بعدکوئی نئی روایت ابھی پوری طرح متشکل ہوکرسامنے آنے سے گریزاں ہوتی ہے۔ جب فنون لطیفہ اس ’ہونے اور نہ ہونے‘ کی فضا کی عکاسی کرنے لگیں اور ملارمے ؔ کے الفاظ میں اشیا کونام مہیا کرنے کے بجائے ان کے امکانات کواجاگر کرنے لگیں تو وہ جدیدیت کی اصل روح سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ معانی کی پختہ سرحدوں کی عکاسی ہر دور کے ادب کا مقدر ہے لیکن جب کسی زمانے میں معانی کی یہ سرحدیں ٹوٹتی ہیں اورامکانات کا ایک جہان ہوش ربا طلوع ہوجاتا ہے توقدیم ادبی مسالک اس کا احاطہ کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں جدیدیت کی تحریک ہی اپنی رفیق قوت تخلیق سے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اترتی ہے۔ یہی جدیدیت کا مسلک اور یہی اس کا مزاج ہے۔
جدیدیت ہر اس زمانے میں جنم لیتی ہے جو علمی انکشافات کے اعتبار سے انقلاب آفریں مگررسوم وروایات کی سنگلاخیت کے باعث رجعت پسند ہوتا ہے۔ بات نفسیاتی نوعیت کی ہے۔ جب علم کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اورنظر کے سامنے نئے افق نمودار ہوتے ہیں توقدرتی طورپر سارا قدیم اسلوب حیات مشکوک دکھائی دینے لگتا ہے مگرانسان اپنے ماضی کی نفی کرنے پرمشکل ہی سے رضامندہوتا ہے اور اس لیے قدیم سے وابستہ رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں اس کی زندگی ایک عجیب سی منافقت کی زد میں آجاتی ہے۔ ذہنی طورپر وہ نئے زمانے کے ساتھ ہوتا ہے اور جذباتی طورپر پرانے زمانے کے ساتھ۔ تاریخ انسانی میں یہ نہایت نازک اور کربناک دور ہے جسے فن کے ذریعے ہی عبور کرنا ممکن ہے۔ ایسے دور میں فن کاروں کا ایک پورا گروہ پیدا ہوجاتا ہے جو انسان کے جذبے اور فہم میں پیداشدہ خلیج کو پاٹنے کے لیے تخلیقی اپج اور اجتہاد سے کام لیتا ہے۔ اس طور کہ انسان کو ایک نیا وژن، ایک نیا سماجی شعور اور ایک تازہ تہذیبی رفعت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ اعادے اور تکرار کی مشینی فضا سے باہر آکر تخلیقی سطح پر سانس لینے لگتا ہے۔
کسی بھی دور میں فن کاروں کی یہ اجتماعی کاوش جواجتہاد سے عبارت اور تخلیقی کرب سے مملو ہوتی ہے، جدیدیت کی تحریک کا نام پاتی ہے۔ واضح رہے کہ جذباتی مراجعت اور ذہنی پیش قدمی میں جس قدر بعد ہوگا، جدیدیت کی تحریک بھی اسی نسبت سے ہمہ گیر اور توانا ہوگی تاکہ جذبے اور فہم میں ہم آہنگی پیدا کرکے انسان کو دوبارہ صحت مند اور تخلیقی طورپر فعال بنا سکے۔ تاہم اس بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ خودجدیدیت کی تحریک متعدد ثانوی تحریکوں میں منقسم ہوئی ہے اوران میں سے ہر ایک تحریک اپنے مخصوص فکری یا سماجی تناظر سے وابستہ ہوکر ایک بالکل مختلف رنگ روپ میں سامنے آگئی ہے۔ یوں کہ اب اس کا اقبال تک کی تحریک سے بظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبالؔ کی تحریک نے اردو ادب کے دھارے کا رخ موڑ دیا تھا اور اقبال کے بعدا بھرنے والے فکری رجحانات اس نئی سمت ہی میں رواں دواں ہیں، جن کی نشاندہی اقبال نے کی تھی۔ گو انہوں نے اپنی اپنی گزرگاہ سے اتنے گہرے اثرات قبول کیے ہیں کہ اب ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے اورجہاں اسے قبول عام کی سند حاصل ہوئی ہے اوراس کے علم برداروں میں اضافہ ہوا ہے تو وہ ایک باقاعدہ ادبی تحریک میں متشکل ہوکر سامنے آگیا ہے۔ ان تحریکوں میں سے ارضی ثقافتی تحریک کا ذکر سب سے پہلے ہونا چاہئے۔
اردوادب میں ارضی ثقافتی تحریک کا آغاز تو اسی وقت ہوگیا تھا جب علامہ اقبال نے ’ہمالہ‘ ایسی نظمیں تخلیق کرنا شروع کیں اور ’گرش ایام‘ کو پیچھے کی طرف دوڑنے کا مشورہ دیا۔ یہ گویا اپنی ثقافتی جڑوں کی تلاش کی ایک کاوش تھی۔ مگراقبال نے بہت جلد اس رویے کو عبور کیا اورکسی ایک خطے سے وابستہ رہنے کے بجائے پہلے سارے کرۂ ارض اوراس کے بعد پوری کائنات سے وابستہ ہوگئے۔ مگر اقبالؔ نے ارضی ثقافتی تحریک کے لیے جو زمین ہموار کی تھی وہ ان کے بعداس تحریک کے بہت کام آئی۔ ویسے بھی انگریزکی محکومی کے خلاف جو سیاسی تحریک شروع ہوئی تھی، اس کی بنیاد وطن دوستی بلکہ ارض پرستی پراستوار تھی۔
انگریز نے برصغیر کوغلام بنا رکھا تھا اوریہاں کی ’’مقدس دھرتی‘‘ کو اپنے غلط قدموں تلے روند رہا تھا اور برصغیر کے باشندوں کے ہاں ردعمل کے طورپر دھرتی اور اس کے ماضی سے ایک شدید وابستگی پیدا ہوگئی تھی۔ یہی ’’وابستگی‘‘ انگریز کی حکومت کے خلاف برصغیر کے باسیوں کا سب سے مؤثر خفیہ ہتھیار تھا اور بالآخر اس خفیہ ہتھیار کے آگے انگریز کے سارے آلات حرب عاجز ہوکر رہ گئے۔ مگر یہ ’’وابستگی‘‘ محض دھرتی سے وابستگی نہ تھی۔ دھرتی کے سارے ثقافتی سرمایے، اس کی تاریخ، بلکہ اس کے پورے ماضی سے لگاؤ کی ایک صورت بھی تھی۔ برصغیر کے باشندوں کوسیاسی سطح پر ہی نہیں تہذیبی سطح پر بھی انگریز نے نیچا دکھایا تھا۔ مثلاً سیاسی سطح پر تو انہیں غلام بنا لیا تھا مگراپنی تہذیبی برتری کی دھاک بٹھاکر ان کے ہاں ایک ایسا پورا طبقہ بھی پیدا کردیا تھا جو دیسی تہذیب کو فرسودہ اور بے کار سمجھنے لگا تھا۔ برصغیر کی تہذیب اور ثقافت کے لیے یہ ایک بہت بڑا خطرہ تھا اور اس لیے اگر یہاں کے باسیوں کے ہاں دھرتی کے ماضی میں غواصی کرنے اور اپنی تہذیبی جڑوں سے قوت اخذ کرنے کا رجحان پیدا ہوا تو یہ ایک بالکل قدرتی امر تھا۔
اردوادب نے اہل ہند کے اس ارضی ثقافتی رجحان کی پوری طرح عکاسی کی اور لکھنے والوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کردیا جو مغربی تہذیب اور تمدن کے گن گانے کے بجائے (جیسا کہ حالیؔ کے زمانے میں عام تھا) اب اپنی تہذیب اوراس کے ماضی پر فخر کرنے لگا۔ میراجیؔ اس ارضی ثقافتی تہذیب کا اولین نمائندہ تھا جس نے افکار کی حد تک ہی نہیں، اپنے حلیے اور رویے کی حد تک بھی خودکو مغربی تہذیب سے منقطع کرکے برصغیر کے ماضی سے وابستہ کرلیا اورادب میں ایک ایسی روش کو جنم دیا جو غیر ملکی تہذیب اور اس کے مظاہر سے قطع تعلق کرکے اپنی دھرتی کی بوباس سے ایک تازہ رشتہ استوار کرنے پر بضد تھی۔ مثلاً جدید تر غزل کو لیجئے، جو ہر چند میراجی کے بہت بعد وجود میں آئی لیکن جس نے میراجیؔ کے ارض پرستی کے رجحان سے واضح اثرات قبول کیے۔
ارض سے یہ لگاؤ اردو غزل تک ہی محدود نہیں بلکہ جملہ اصناف ادب میں جذب ہوتا چلا گیا ہے مگر جہاں تک اس تحریک کی فکری جہت سے تعلق ہے، اس کا آغاز دراصل ادبا کے اس گروہ سے ہوتا ہے جسے بعض لوگوں نے طنزاً ’’سرگودھااسکول‘‘ کا نام دیا ہے۔ اس گروہ نے واضح انداز میں وطن دوستی کے مسلک کو اختیار کیا ہے اور ارض کے حوالے سے انسان کے اجتماعی لاشعور کوتخلیق کا منبع قرار دے کر تخلیقی عمل کا ایک تجزیہ پیش کردیا ہے۔ وہ لوگ جواپنے خاص مقاصد پر ارض وطن کو قربان کرنے کے حق میں تھے، اس رجحان سے ہمیشہ ہی ناخوش رہے مگر وہ لوگ جو خاک کے ہر ذرے کو اپنے لیے دیوتا قرار دیتے تھے، اس ارضی ثقافتی میلان کو حرزجاں بنائے رہے۔ اس اعتماد اور تیقن کے ساتھ کہ ادب کے سوتے ارض ہی سے پھوٹتے ہیں اور قوم کی پوری ثقافتی تاریخ کے جوہر کو پیش کردیتے ہیں۔ لہٰذا تہذیبی اورثقافتی جڑوں سے بے اعتنائی کا نتیجہ ہوا میں معلق ہوجانے کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔
ارضی ثقافتی تحریک سے صرف میراؔجی ہی وابستہ نہ تھے۔ ان کے علاوہ متعدد دوسرے شعرا کے ہاں ارض اور اس کے مظاہر سے لگاؤ کی کوئی نہ کوئی ضرورت ضرور ابھری ہے۔ افسانہ نگاروں کے ہاں بھی زمینی عناصر سے لگاؤ کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ اس سلسلے میں اردو انشائیہ نے بالخصوص ایک ایسے فکری رویے کو فروغ دیا جو مزاجاً ارضی اور اس اعتبار سے قطعاً منفرد اور یکتا ہے۔ دراصل انشایئے نے ماورائی اورنظریاتی بام سے نیچے اترکر زمین کے لمس کو خود میں سمویا ہے اور فرد کے اس لمحہ تنہائی کو اجاگر کیا ہے جس میں وہ اپنی پوری ثقافت کا احاطہ کرلیتا ہے۔
جدیدیت کی بڑی تحریک سے پھوٹنے والی دوسری ثانوی تحریک کا نام ’’ترقی پسند تحریک‘‘ تھا۔ ادب میں ارضی ثقافتی تحریک اور ترقی پسند تحریک میں قدر مشترک ’’ارض‘‘ تھی مگران میں سے ہر ایک نے ارض کے حوالے سے اپنے مخصوص مزاج ہی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مثلاً ارضی ثقافتی رجحان کے پیش نظر یہ مقصد تھا کہ اپنے ثقافتی سرمایے کی تلاش کرنے کا منتہا ایک روحانی تشکیل نو تھا اوراس لیے اس تحریک کی نسبت میں روحانی اقدار کے دھاگے واضح طورپر استعمال ہوئے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں ترقی پسند تحریک ایک خالصاً مادی تحریک تھی جس کا مقصد روحانی بالیدگی کا حصول نہیں بلکہ معاشی انصاف کے لیے زمین ہموار کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے ترقی پسند تحریک ان تمام فرسودہ اور رجعت پسند عناصر کے استحصال پربضد تھی جو ایک ترقی پسند معاشرے کی تشکیل میں مزاحم ہوتے ہیں اور استحصال کی فضا کو قائم رکھنے کے لیے اپنا سارا زور صرف کردیتے ہیں۔
ترقی پسند تحریک کا اصل مقصد سماجی انجماد کو توڑ کر فرد کو صدیوں پرانے اور ظالم استحصالی نظام سے نجات دلانا تھا تاکہ وہ ایک آزاد اور باعزت شہری کی طرح بسراوقات کرسکے۔ یوں دیکھئے توترقی پسند تحریک بنیادی طورپر ایک اخلاقی تحریک بھی تھی مگر اس کا اخلاقی نظام کسی خاص مذہبی نظام کے حوالے سے نہیں بلکہ عمومی انسانی اقدار کے حوالے سے مرتب ہوا تھا۔ اصولی طورپر اس تحریک کا تعلق سیاست اور معیشت ہی کے ساتھ قائم ہونا چاہئے تھا کیونکہ جس میدان میں یہ تحریک سرگرم رہنا چاہتی تھی، وہ اس عقبی دیار سے خاصا دور تھاجہاں ہونے اورنہ ہونے کی کیفیت سدا مسلط رہتی ہے اور جہاں سے تخلیقی ادب کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ مگرچونکہ اس تحریک کے نام لیوا اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہر موثر حربے کو استعمال کرنا چاہتے تھے اور چونکہ ادب معاشرے کو بدلنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، لہٰذا انہوں نے اپنی تحریک میں اس بات کو بطور خاص شامل کرلیا کہ ادب کومعاشی مساوات کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے۔
اس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ لوگ جو ذریعے کو ’’مقصد‘‘ کے تابع کرنے کے حق میں تھے، ادبی تخلیق کے بجائے صرف پمفلٹ لکھنے کی حد تک ہی کامیاب ہوسکے۔ دوسری طرف وہ ترقی پسند ادبا جنہوں نے صرف زبانی کلامی ادب کو ایک خاص مقصد کے تابع کیا تھا مگر تخلیقی لمحات میں قطعاً غیرشعوری طورپر ایک آزاد تخلیقی فضا میں آجاتے تھے، یقیناً اچھا ادب تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو تخلیق کار، تخلیقی عمل سے گزرنے کے دوران میں نہ ترقی پسند ہوتا ہے نہ رجعت پسند، نہ ہندو نہ مسلمان، نہ سرمایہ دار، نہ مزدور بلکہ صرف تخلیق کار ہوتا ہے اور تخلیقی رو کے سحر میں پوری طرح مقید ہونے کے باعث ان جملہ سیاسی، معاشی، یا مذہبی مقاصد کو فراموش کرچکا ہوتا ہے جو اس کی عام زندگی پر مسلط ہوکر اسے ’دائیں بائیں‘ خانے کے سپرد کردیتے ہیں۔
لہٰذا ترقی پسند تحریک نے جب شعوری طورپر ادبا کو ایک خاص سیاسی مسلک اختیار کرنے اورپھر اسی مسلک کے مطابق ادب تخلیق کرنے کی تلقین کی تواس سے ادب کو نقصان پہنچا، تاہم وہ ترقی پسند ادبا جنہوں نے ترقی پسندی کے مسلک کو اسی حد تک اختیار کیا تھا جس حد تک مذہب یا پیشہ سیاسی پارٹی کواختیار کیاجاتا ہے، مگرجو تخلیقی لمحے میں ’’آزاد‘‘ ہوگئے تھے، یقیناً اچھا ادب تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے۔ فیضؔ، کرشن چندرؔ اور متعدد دوسرے ترقی پسند ادبا کی بعض تخلیقات کو اس سلسلے میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
جدیدیت کی بڑی تحریک سے پھوٹنے والے تیسرے ثانوی رجحان کو ’’نوترقی پسند تحریک‘‘ کا نام ملنا چاہئے۔ اس تحریک کو برہم نوجوانوں کی تحریک کا نام بھی دیا گیا ہے۔ وجہ یہ کہ ۱۹۶۰ء کے لگ بھگ نوجوان ادبا کا ایک پورا طبقہ پیدا ہوگیا تھا جو ہر شے سے ناراض تھا۔ مذہب، معاشرتی اقدار، زبان کا مروجہ اسلوب حتیٰ کہ زندگی کارائج پیرایہ تک اسے ناپسند تھا۔ صاف نظرآتا تھا کہ یہ طبقہ یورپ کی اس تحریک سے متاثر تھا جسے ’’موجودیت کی تحریک‘‘ کا نام ملا ہے۔ موجودیت کا فلسفہ چنداساسی اور بنیادی نظریات پراستوار تھا۔
مثلاً ایک یہ کہ جوہر کے مقابلے میں موجود کو اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ دوسرا یہ کہ زندگی بے معنویت سے عبارت ہے (اس سلسلے میں سسی فس کی اسطور پیش کی گئی کہ انسان کے جملہ اقدامات قطعاً بے معنی ہیں۔) تیسرا خوف، مایوسی، متلی کی کیفیت ایسے نفسیاتی مظاہر کے وجود کا احساس۔ چوتھا فرد کی دروں بینی میں دلچسپی۔ پانچواں ’’انتخاب‘‘ کی ضرورت۔ چھٹا مابعد الطبیعاتی نظام کی نفی۔ ساتواں (سارتر کے حوالے سے) مکمل وابستگی کا نظریہ وغیرہ۔ اردوادب کے ناراض نوجوانوں نے اپنی پہلی یلغار میں ’’مکمل وابستگی‘‘ کے نظریے کوپس منظر رکھا مگر موجودیت کے باقی نظریات کا کھلم کھلا پرچار کرنے لگے۔
البتہ انہوں نے ایک جدت یہ کی کہ ان نظریات میں وٹ گن اسٹائن کی علامتی اشاری زبان SIGN LANGUAGE کے تصور کوشامل کرلیا۔ چونکہ ترقی پسندوں نے وٹ گن اسٹائن کو ایک بورژوا مفکر قرار دیا ہے اور خود موجودیت کے فلسفے کو بھی بورژوائی رنگ کا مظہر متصور کیا ہے، لہٰذا ناراض نوجوانوں کی اس تحریک پر اول اول غیرترقی پسند تحریک کا گمان ہوتا تھا مگر کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ اس تحریک کے نام لیواؤں نے بے معنویت کے احساس کو بورژوائی نظام کی پیداوار قرار دیا اور موجودیت کی تحریک سے سارتر کے ’’مکمل وابستگی‘‘ کے تصور کو کاٹ کر الگ کرلیا اور ان دونوں نظریوں کو اساس بناکر ترقی پسندی کا ایک نیا ایڈیشن شائع کردیا۔ مگر اب یہ ترقی پسند تحریک نہیں بلکہ نوترقی پسند تحریک کہلائی۔ تاہم چونکہ دونوں میں قدر مشترک نیز مقصد اور طریق کار ایک ہی تھا، لہٰذا سطح پر آنے کے بعد نوترقی پسند تحریک کچھ زیادہ دیر تک اپنی انفرادیت کو قائم نہ رکھ سکی اور ترقی پسند تحریک میں ضم ہوگئی۔
ویسے بھی اب اس تحریک کے نام لیوا ’’نوجوان‘‘ نہیں رہے بلکہ بعض تو بوڑھوں میں شمار ہونے لگے ہیں۔ لہٰذا جذباتیت کے منہا ہوجانے کے بعد اس تحریک کا شور قریب قریب ختم ہوگیا ہے مگراس تحریک نے اردو زبان اور ادب کو جو نقصان پہنچانا تھا ’’بطریق احسن‘‘ پہنچا دیا ہے۔ آج اگرنوجوان ’’نثری نظم‘‘ کے سلسلے میں جذباتی ہوگئے ہیں یا ادبی اقدار تک کوشک وشبہ کی نظروں سے دیکھتے ہیں یا زبان کی شکست وریخت کو اپنا مسلک بنائے پھرتے ہیں تو یہ سب کچھ اس تحریک ہی کا منفی اثر ہے۔