بے بسی

میں نے چاہا تھا کہ تاروں کی بجھا دوں شمعیں
نکہت و نور کے سانچے میں جو دیکھا تھا اسے
کون کر سکتا ہے انکار وجود
میں نے دیکھی ہیں لچکتی ہوئی بانہیں اس کی
مرمریں شانوں پہ بکھری ہوئی مشکیں زلفیں
رس بھرے ہونٹ
رسیلی آنکھیں
تاب نظارہ نہ موسیٰ کو ہوئی کیوں ہوتی
اس کی آنکھوں میں تھے سہمے ہوئے جذبات نہاں
کاش اس نے مرے محبوب کو دیکھا ہوتا
کاش موسیٰ کا خدا میرا رقیب
میرے محبوب کے ہوتے بھی خدائی کرتا
ہائے یہ بے بسی اور مجبوری
بر سر طور میں روشن تارے
میں نے چاہا تھا کہ تاروں کی بجھا دوں شمعیں