بے یقینی کا صحرا

اے خدا
تیرا لاچار بندہ
تشنہ لب بے سہارا
بے یقینی کے صحرا میں تنہا کھڑا ہے
کتابوں سے لہجوں سے لفظوں سے میرا یقیں اٹھ چکا ہے
ہر طرف شور ہے کھوکھلے الفاظ و اظہار کا
صرف پرچار کا
سب عقیدے نظریے
محض اشتہارات ہیں
ڈھول پیٹے چلے جا رہے ہیں
اس قدر شور ہے کہ سماعت بھی پتھرا گئی ہے
اس قدر روشنی کے بصارت بھی دھندلا گئی
اے خدا
روشنی کے اندھیرے میں اک نور دے
نور ایسا کہ جس سے منور ہو دل
ابر رحمت یقیں کا
بے یقینی کے صحرا پہ سایہ فگن ہو