بے ساختہ دل یہ چاہتا ہے
ہنگامۂ روز و شب سے ہٹ کر
کچھ دیر کو ذات سے نکل کر
احساس ملے جو ماورائی
بے ساختہ دل یہ چاہتا ہے
وہ ہاتھ جو لکھ رہا ہے سب کچھ
تقدیر کا کھول کر نوشتہ
جب اپنے ہی دھیان میں مگن ہو
چپکے سے اٹھا کے ایڑیوں کو
ہولے سے ورق الٹ کے دیکھوں
اس وقت میں جو ہے آنے والا
جاں لیوا مسافتوں کے رستوں
پر کون کہاں تلک چلا ہے
اور خاک کے اس بدن پہ کتنا
دکھ درد کی خیمہ بستیوں کا
یہ بوجھ کوئی اٹھا سکا ہے
آنکھوں میں جلے دیوں کی لو نے
بجھنے میں لیا ہے وقت کتنا
کب تک بھرم آنسوؤں کا رکھا
خوابوں کی ہتھیلیوں نے کب تک
افسوں کے چراغ تھام رکھے
مے خانۂ سر خوشی نے کب تک
مستی کے ایاغ تھام رکھے
قدموں نے دیا تھا کس قدر ساتھ
اک دوڑ کو ہارنے سے پہلے
اک پیکر درد سے طرب کا
ملبوس اتارنے سے پہلے
بے ساختہ دل یہ چاہتا ہے