بے روزگار ہی سہی خوددار میں بھی ہوں
بے روزگار ہی سہی خوددار میں بھی ہوں
اپنی رہ حیات میں دیوار میں بھی ہوں
دو چار سال اور ہے ناقدریٔ سخن
مردہ پرست شہر کا فن کار میں بھی ہوں
تشکیک دل میں سر میں جنوں لب پہ گالیاں
کیا روح عصر کی طرح بیمار میں بھی ہوں
شہر منافقت میں بسر کر رہا ہوں میں
لگتا ہے اپنے عہد کا اوتار میں بھی ہوں