بے خوابی کی تیسری شب
بے خوابی کی تیسری شب
بے خوابی کی تیسری شب ہے
دو آنکھیں چمک چمک کر
مجھ سے باتیں کرتی ہیں
میرے سرہانے
اک سگریٹ پیتا اجلا اجلا سایہ
انجانی خوشبو میں بسا
اڑتا اڑتا آتا ہے
چھوتے ہی کھو جاتا ہے
بے خوابی کی تیسری شب ہے
نئی کتابوں کے اوراق
کیوں حرفوں سے خالی ہیں
میں اپنی ڈائری میں لکھتا ہوں
بے چینی مرے قلم سے
ننھے لفظوں میں ٹپک رہی ہے
پھر کیسے رگ رگ میں واپس اڑ کر آ جاتی ہے