بے خبر
نومبر کی زرد رو دھوپ
کھڑکی کے روزن سے نکل کر
ہر سو پھیل گئی ہے
ویران اجاڑ کمرے میں
خشک موٹی کتابیں ہیں
نیم شب کی جلی ادھ جلی سگریٹیں
بوڑھے شاعر کا پرانا چشمہ
جھریوں بھرے ہاتھوں کی لرزش میں انوکھے الفاظ
رنگ خوشبو فلک پیمائی کے نئے انداز
کرم خوردہ میز کے عقب میں بوڑھا شاعر
پار کر کی موٹی نب سے لکھے جا رہا ہے
رنگ کی زباں میں خوشبو کے افسانے
اسے خبر بھی نہیں
کہ
نومبر کی زرد رو دھوپ
اس کی میز پر سرک آئی ہے
اور
انگور کی سرد خشک بیل
کھڑکی کی درز سے
اسے جھانکتی ہے