بیگانگئ طرز ستم بھی بہانہ ساز

بیگانگئ طرز ستم بھی بہانہ ساز
بیچارگیٔ کرب و الم بھی بہانہ ساز


کچھ بت بنا لیے ہیں چٹانیں تراش کر
دل بھی بہانہ ساز ہے غم بھی بہانہ ساز


عذر وفا کے ساتھ جلاتے رہے چراغ
کھلتا ہے اب کہ دیدۂ نم بھی بہانہ ساز


پابندیٔ رسوم وفا بھی بہانہ خو
ترک وفا و شیوۂ رم بھی بہانہ ساز


ہر لمحۂ حیات کا تنہا رہا وجود
دلداریٔ نگاہ کرم بھی بہانہ ساز


کچھ دور ساتھ ساتھ تھے اتنا تو یاد ہے
صحرائے غم میں نقش قدم بھی بہانہ ساز


سب سے بڑا فریب ہے خود زندگی اداؔ
اس حیلہ جو کے ساتھ ہیں ہم بھی بہانہ ساز