بیان صفائی

رات اترتی گئی
مجھ کو خبر ہی نہ تھی


کاغذ بے رنگ میں سرد ہوس جنگ میں
صبح سے مصروف لوگ اپنی چادر میں بند


آنکھ کھٹکتی نہیں
دل پہ برستی نہیں


خشک ہنسی بے نمک شہر فضا میں بلند
تنگ گلی کی ہوا


شام کو چوہوں کی دوڑ
تیز قدم گربۂ شاہ جہاں کب جھپٹ لے گی کسے


کیا پتہ
نیند کا اونچا مکاں روشنیوں سے سجا


ہم سب کی کھڑکیاں دروازے بند ہیں
گھر کی چھتیں آہنی


گھر کی حفاظت کرو گھر کی حفاظت کرو
رات اترتی رہے ہم کو دکھائی نہ دے


ہم پہ ہوا الزام کیوں