چھے منٹ میں چارج ہونے والی بیٹری: بیٹری کی دوڑ میں سارا جہاں
چین کے ماہرین نے ایک لیتھیم آئن بیٹری تیار کی ہے جس میں تانبے اور تانبے کی ننھی تاریں استعمال کی گئی ہیں، بیٹری کی سٹوریج کپیسٹی کو متاثر کیے بغیر، 6 منٹ میں 60 فیصد تک چارج کر سکتی ہے۔ یہ زیادہ موثر بیٹری ایک دن الیکٹرک کاروں کو چارج کرسکے گی، جس سے ڈرائیور گاڑی کے چارج ہونے کا انتظار کیے بغیر طویل سفر کر سکیں گے۔ ہم جوگھڑیوں میں عام الیکٹرک سیل استعمال کرتے ہیں اور موبائل فون میں استعمال ہونے والی بیٹریاں لیتھیم آئن بیٹری کی عام مثالیں ہیں۔
بیٹریاں، زیادہ تر لیتھیم آئن ہوتی ہیں، ٹھوس شکل میں ڈھالنے کے لیے بائنڈنگ ایجنٹس استعمال کیا جاتا ہے جو بیٹری میں استعمال ہونے والے ذرات کو چپکائے رکھتی ہے۔۔ یہ ذرات کی بے ترتیب صورت سے ایک موٹی بیٹری بن جاتی ہے، جس سے چارجنگ سست ہو جاتا ہے۔ جبکہ پتلی بیٹریاں زیادہ تیزی سے چارج کرسکتی ہیں، لیکن توانائی (پاور) نسبتاً کم ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
نیوسائنٹسٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق چین کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہافے سے وابستہ یاؤ ہونگ بن اور ان کے ساتھیوں نے ان مسائل کا حل نکال لیا ہے یعنی بیٹری کی جسامت پتلی اور کم وزن بھی ہوگی،جارچنگ بھی تیز اور بیٹری کی لائف ٹائم بھی زیادہ۔ انھوں نے ایک ایسی لیتھیم آئن بیٹری تیار کی ہے جس میں سٹرکچرڈ اینوڈ استعمال کیا گیا ہے۔ اینوڈ بیٹری کا مثبت کنارہ(پازیٹو اینڈ) ہوتا ہے۔
عام طور پر لیتھیم آئن بیٹری اینوڈ گریفائٹ سے بنے ہوتے ہیں گریفائٹ کے ذرات بے ترتیب جڑے ہوتے ہیں۔ لیکن یوہانگ بِن اور ان کی ٹیم نے ان گریفائٹ کے ذرات کوان کی جسامت اور ان کے درمیان فرق کی تعداد کے لحاظ سے ترتیب دیا، جسے پورسٹی کہا جاتا ہے۔
ان کی بیٹری 5.6 اور 11.4 منٹ میں بالترتیب 60 فیصد اور 80 فیصد تک چارج ہو گئی، جبکہ معیاری ٹیسٹوں پر اعلی توانائی کا ذخیرہ برقرار رکھا گیا۔محققین نے 100 فیصد چارج حاصل کرنے کا وقت ریکارڈ نہیں کیا۔ الیکٹرک کار بنانے والے اکثر یہ تجویز کرتے ہیں کہ بیٹری کی لمبی عمر برقرار رکھنے کے لیے گاڑیوں کو 80 فیصد تک چارج کیا جائے۔ ٹیسلا کو عام طور پر 40 فیصد سے 80 فیصد تک چارج ہونے میں 40 منٹ سے ایک گھنٹہ لگتا ہے۔
لیتھیم آئن بیٹری کی مارکیٹ
آج دنیا میں لیتھیئم آئن بیٹریز کی مارکیٹ کا حجم 70 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور یہ 20 فی صد کی شرح سے ہر سال بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں کسی ایک جگہ بھی لیتھیئم آئن بیٹریز بنانے کا سسٹم ہی موجود نہیں ہے۔ جبکہ دنیا میں ایسی پیش گوئیاں چل رہی ہیں کہ جیسے ایک زمانے میں تیل پر جنگیں ہوئیں ایسے ہی اب بیٹریوں میں استعمال ہوانے والے مادے پر جنگیں متوقع ہیں۔ بی بی سی ورلڈ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق تیل اور گیس اس وقت پوری دنیا میں کئی جنگوں اور تنازعات کی وجہ بن چکے ہیں لیکن آنے والے وقت میں مختلف ممالک کے درمیان جنگوں کی بنیادی سبب معدنیات ہوں گی۔ ذرا ایک منظر ملاحظہ کی جیے:
دنیا میں تیل کے سب سے بڑے صارف امریکہ نے روس کے یوکرائن پر حملے کے ردعمل میں 8 مارچ 2022 کو روسی تیل اور توانائی کی دیگر درآمد پر پابندی عائد کر دی۔ یہی وہ دن تھا جس دن صبح 5:42 بجے نِکل دھات کی قیمت اتنی تیزی سے بڑھنا شروع ہوئی کہ لندن میٹل ایکسچینج میں خوف و ہراس پھیل گیا۔اٹھارہ منٹ میں نکل کی قیمت ایک لاکھ ڈالر فی ٹن تک جا پہنچی ۔ جس کی وجہ سے نکل کے آپریشنز کو روکنا پڑا۔
یوکرائن پر روس کے حملے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ مارکیٹ میں دھات کا بڑا بحران پیدا ہوا۔مغربی ممالک کی طرف سے روس پر عائد پابندیوں کے باعث قیمتوں میں اس اضافے سے واضح ہو گیا کہ نکل جیسی دھات دنیا میں اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ یہ ایک ایسی معیشیت کے لیے اہم ہے جو فوسل فیول پر کم سے کم انحصار کرنا چاہتی ہے۔
متبادل توانائی کے لیے ماہرین دنیا میں کم از کم 17 معدنیات کو اہم سمجھتے ہیں۔ اس لیے جن ممالک کے پاس ان معدنیات کو نکالنے اور پراسیس کرنے کی صلاحیت ہے وہ زیادہ فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا اندازہ ہے کہ ان 17 معدنیات میں سب سے اہم رئیر ارتھ، لیتھیم، نِکل، کوبالٹ، تانبا، گریفائٹ ہیں۔
لیتھیم آئن بیٹریوں کی مانگ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ ان بیٹریوں کا مارکیٹ میں حجم 70 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ چائنہ سمیت کئی ملکوں نے لیتھیم کی پیداوار اور پروسیسنگ میں خودکفیل ہونے کے لیے اقدامات کرنا شروع کردیے ہیں۔ جبکہ ہمارا نام صرف لیتھیم آئن بیٹریوں کے خریداروں میں آتا ہے۔ بقول ریحان اللہ والا کے ہم غریب ہیں اس لئے نہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں اس لئے کہ ہم نالائق ہیں بھیک مانگ کر کھانے کے عادی ہو گئے ہیں۔
ہم چین کے ساتھ مل کر توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بہتر اقدامات کرسکتے ہیں۔ زیر نظر خبر سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین متبادل توانائی کے ذرائع میں خود کفالت اور جدید ٹیکنالوجی میں کتنی سنجیدگی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ چین کے تعاون سے ملک میں لیتھیم آئن بیٹریاں خود تیار کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔