بتاؤ کس طرح پہنچے ہو شب کو تم ٹھکانے پر
بتاؤ کس طرح پہنچے ہو شب کو تم ٹھکانے پر
مجھے تو کچھ بھروسا بھی نہیں ہے اس زمانے پر
بتاؤ کون تھا کس نے جلا ڈالا تمہارا گھر
پرندہ بھی نظر رکھتا ہے اپنے آشیانے پر
نہ جانے کس طرح ہوں گے یہاں حالات بہتر اب
یہاں تو سانپ بیٹھے ہیں جدھر دیکھو خزانے پر
مجھے معلوم ہے مجھ کو دیا ہے زہر تو نے ہی
بھروسا کیا کروں اب یار تیرے دوستانے پر
یہ ہم سے دشمنی تیری سمجھ میں ہی نہیں آتی
فقط ہم اہل دل ہی رہتے ہیں تیرے نشانے پر
کوئی ایسا فسانہ تو سنا اے ہم سفر مجھ کو
حقیقت کا گماں ہونے لگے تیرے فسانے پر
ابھی بھی وقت ہے زیبیؔ اگر چاہو تو لوٹ آؤ
یہاں بھی نام لکھا ہے تمہارا دانے دانے پر