بسا اوقات مایوسی میں یہ عالم بھی ہوتا ہے
بسا اوقات مایوسی میں یہ عالم بھی ہوتا ہے
تبسم کی تہوں میں اہتمام غم بھی ہوتا ہے
خوشی تنہا نہیں آتی جلو میں غم بھی ہوتا ہے
جہاں ہنستی ہیں کلیاں گریۂ شبنم بھی ہوتا ہے
نئی تہذیب کے معمار شاید اس سے غافل ہیں
بہ ایں آثار عالم درہم و برہم بھی ہوتا ہے
جو آنکھیں گھونگھٹوں میں روز کے فاقوں سے پر نم ہیں
ان آنکھوں میں فسون عصمت مریم بھی ہوتا ہے
بہ ایمائے خرد تم دیکھتے ہو جس کو نفرت سے
وہ دیوانہ خرد کی اصل کا محرم بھی ہوتا ہے
رباب زندگی کے زمزموں پر جھومنے والے
ہر اک نغمے میں نا معلوم سا ماتم بھی ہوتا ہے
وہ انساں ناز کرتا ہے جو اول سے شرافت پر
بہکتا ہے تو ننگ عظمت آدم بھی ہوتا ہے
جوانی سیل شعر و بادۂ نغمہ سہی لیکن
یہ طوفان لطافت خود بخود مدھم بھی ہوتا ہے
جسے کوئی سمجھ لے سادگی سے حاصل ہستی
وہ جب حاصل نہیں ہوتا تو آخر غم بھی ہوتا ہے
تبسم پھول برساتا ہے جن رنگین ہونٹوں سے
انہی ہونٹوں پہ اک دن نالۂ پیہم بھی ہوتا ہے
بجز ذات خدا احسانؔ کوئی بھی نہیں اپنا
سنا تھا لاکھ دشمن ہوں تو اک ہمدم بھی ہوتا ہے