برگد کا بوڑھا پیڑ
برگد کا یہ بوڑھا پیڑ
جس کے جسم کی کھال تک اب تو سوکھ گئی ہے
اس کے سائے میں
جانے کتنے رومان پلے ہیں
جانے کتنے پیمان بندھے ہیں
اس برگد کے پیڑ کو سب
ہم راز بنا کر
جیون ساتھ نبھانے کا
وعدہ کرتے تھے
اس برگد کے سائے میں
کتنی چھیل چھبیلی سندر ناری
میت سے ملنے کی آشا میں
پہروں بیٹھی رہتی تھیں
کتنے البیلے شوخ کنہیا
اس برگد کے سائے میں
اپنی نے سے
مد بھری آواز کا جادو گھولتے تھے
برہا راگ کو چھیڑ کے اکثر
فرط غم سے
اشک کے موتی رولتے تھے