برباد ہو گئے ہیں بہت تیرے پیار میں
برباد ہو گئے ہیں بہت تیرے پیار میں
افسردہ آج بیٹھے ہیں غم کے حصار میں
لیتی ہوں روز لطف اذیت بہار میں
انگلی چبھوتی رہتی ہوں میں نوک خار میں
کب لوٹ کر تو آئے گا اے میرے ہم نشیں
صدیاں گزر گئیں ہیں ترے انتظار میں
بکھرا ہوا ہے چار سو یادوں کا اک ہجوم
ہلچل مچی ہوئی ہے دل بے قرار میں
تنہائیوں کے دشت میں جینا محال ہے
لمحے پہاڑ ہونے لگے ہجر یار میں
در در کی خاک چھان رہی ہوں ترے لیے
صورت بگڑ گئی مری گرد و غبار میں
فرصت کہاں کہ ڈھونڈھنے جاؤں مسرتیں
زینتؔ الجھ گئی ہوں غم بے شمار میں