برس کے بھی نہ مرے کام آ سکی بارش
برس کے بھی نہ مرے کام آ سکی بارش
ابھی وہ کھل ہی رہے تھے کہ دھل گئی بارش
بجھا سکی نہ کسی طور میری روح کی پیاس
بدن کی حد سے تجاوز نہ کر سکی بارش
عجب نہیں کہ جگر تک اتر گئی ہوتی
ہمارے ساتھ اگر خود بھی بھیگتی بارش
ہے ذکر یار اسی التزام سے رنگیں
مہکتا جسم جواں رات بے خودی بارش
ہمیں فریب نظر کا شکار ہوتے رہے
ہوا کے ساتھ بدلتی تھی سمت بھی بارش
کبھی تو راز دلوں کے ٹٹولتی عاصمؔ
کبھی تو جھانکتی آنکھوں میں سر پھری بارش