بندہ پرور جو نہ پچھتائیے گا
بندہ پرور جو نہ پچھتائیے گا
بندہ خانہ پہ کبھی آئیے گا
یاد کیجے گا محبت اگلی
غیر کے ملنے سے شرمائیے گا
بوسہ دیجے گا گلے لگ لگ کر
زیادہ اور مجھ کو نہ بکوائیے گا
میرے غماز کو اپنے در سے
دھکے یکبار تو دلوائیے گا
حسن کے صدقے مری خاطر سے
کدر دل ذرا دھلوائیے گا
ستم و جور و جفا کا شیوہ
چھوڑ دیجے گا نہ بل کھائیے گا
طاقت و صبر تحمل میرا
لے کے کچھ اور ہی فرمائیے گا
زندگی ہجر میں ہونا معلوم
جی میں آتا ہے کہ مر جائیے گا
زلف میں دل کو پھنسا کر میرے
آپ شانے سے نہ سلجھائیے گا
صید مطلوب ہو تو بندہ کا سر
اپنے فتراک سے لٹکائیے گا
عرض افریدیؔ کی کیجے منظور
آپ تشریف ادھر لائیے گا
گر نہ مانو گے مری بات سنو
پھر نہ میرے تئیں سمجھائیے گا
یاں پہ موقوف ہے کیا افریدیؔ
منہ نہ پھر حشر کو دکھلائیے گا