بنا ہوں میں آج تیرا مہماں کوئی عدو کو خبر نہ کر دے
بنا ہوں میں آج تیرا مہماں کوئی عدو کو خبر نہ کر دے
اٹھا کے وہ تیری انجمن سے کہیں مجھے در بدر نہ کر دے
یہ وصل کی رات ہے خدارا نقاب چہرے سے مت ہٹاؤ
تمہارے چہرے کا یہ اجالا سحر سے پہلے سحر نہ کر دے
قسم جسے ضبط غم کی دے کر اٹھا دیا اپنے در سے تو نے
کہیں وہ دیوانہ عمر اپنی بغیر تیرے بسر نہ کر دے
بڑے مزے سے میں پی رہا ہوں مری طرف تم ابھی نہ دیکھو
مجھے یہ ڈر ہے نظر تمہاری شراب کو بے اثر نہ کر دے
ستایا جس کو ہمیشہ تو نے سدا اکیلا جو چھپ کے رویا
وہ دل جلا اپنے آنسوؤں سے تمہارا دامن بھی تر نہ کر دے
قتیلؔ یہ وصل کے زمانے حسین بھی ہیں طویل بھی ہیں
مگر لگا ہے یہ دل کو دھڑکا انہیں کوئی مختصر نہ کر دے