بن کے خوشبو جو چل پڑی ہے ابھی
بن کے خوشبو جو چل پڑی ہے ابھی
کوئی تازہ کلی کھلی ہے ابھی
عین ممکن ہے یاد ہو ان کی
دل میں اک شمع سی جلی ہے ابھی
کیوں کھٹکتی ہے سب کی نظروں میں
شاخ نازک پہ جو کلی ہے ابھی
اس کے سائے میں امن پلتا تھا
وہ جو دیوار اک گری ہے ابھی
بے خبر کیسے ہو گئے رہبر
زندگی راہ میں پڑی ہے ابھی
نفرتوں کا اثر ہے یہ شاید
دل پہ جو گرد سی جمی ہے ابھی
کوئی عارفؔ وفا کا کام کرو
آدمیت بہت دکھی ہے ابھی