بلوچستان کی 7 حیرت انگیز ریلوے سرنگیں
اگر آپ نے کبھی ٹرین کے ذریعے بلوچستان کا سفر کیا ہے تو آپ کی ٹرین دوران سفر مختلف پہاڑی سرنگوں میں سے گزری ہو گی۔ خاص طور پر اگر آپ کی ٹرین " نیپر" نامی سرنگ سے گزری ہو گی جو پاکستان کی سب سے طویل سرنگ شمار ہوتی ہے اور جس کے اندر سے آج بھی ٹرین گزرتے ہوئے تقریباََ تین منٹ لیتی ہے، تو آپ یقینا حیران ہوئے ہوں گے کہ آج سے قریباََ ڈیڑھ سو سال پہلے، ماہرین نے پہاڑ کے نیچے یہ سرنگ کس طرح بنائی ہو گی۔آج ہم آپ کے سامنے بلوچستان میں واقع ایسی ہی مشہور ریلوے سرنگوں کا احوال بیان کرنے جا رہے ہیں۔
بلوچستان میں ریلوے کی مختصر تاریخ
براعظم ایشیا میں سب سے پہلی ٹرین 16 اپریل 1853 کو شروع ہوئی اور اس کا پہلا ریلوے اسٹیشن بمبئی تھا۔ اس کے بعد 13 مئی 1861 وہ تاریخی دن تھا جب اہل کراچی نے انیسویں صدی کے عجوبے یعنی دخانی (اسٹیم)انجن کا استقبال کیا۔ 1880 کو جیکب آباد سے چلنے والا پہلا اسٹیم انجن پھنکارتا ہوا سبی میں داخل ہوا اور بلوچستان کے لوگوں نے پہلی بار ریلوے انجن کا مشاہدہ کیا۔
بلوچستان میں ریلوے لائن بچھانے کے لیے سروے 1876 میں شروع کیا گیا اور 1879 میں وائسرائے ہند نے بلوچستان میں ریلوے لائن بچھانے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے رُک سے لے کر سبی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام شروع کیا گیا اور ساڑھے تین ہزار مزدور لگا کر اکتوبر 1879 میں ایک مہینے کے اندر 215 کلومیٹر لمبی ریلوے لائن بچھائی گئی اور 14 جنوری 1880 کو پہلا ریلوے اسٹیم انجن سبی میں داخل ہوا۔
بلوچستان میں واقع ریلوے لائن پر کل 66 ریلوے اسٹیشن قائم کئے گئے تھے جن میں سے 24 بند کر دئیے گئے اور اب 42 اسٹیشن رہ گئے ہیں۔ بولان ٹریک پر تمام اسٹیشن بہت خوبصورت انداز میں تعمیر کئے گئے ہیں۔ کولپور صوبے کا ایک خوبصورت ہل اسٹیشن ہے۔ اسی طرح مچ کا اسٹیشن بھی بہت خوبصورت ہے اور اس کا ڈیزائن سوئٹزرلینڈ کے ایک ریلوے اسٹیشن کی طرز پر بنایا گیا ہے۔
بلوچستان کی ریلوے سرنگیں
جیکب آباد سے سبی تک ریلوے لائن کچھی کے زرخیز میدانی علاقے میں بچھائی گئی ہے جبکہ سبی کے بعد بولان کے بلندوبالا اور سنگلاخ پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ ان پہاڑوں کا سینہ چیر کر 140 کلومیٹر لمبی ریلوے لائن پر 20 سرنگیں تعمیر کی گئی ہیں۔
بلوچستان میں ریلوے لائن کی کل لمبائی 1326 کلومیٹر ہے۔ اس طویل ریلوے ٹریک پر ماہر، مشاق اور باذوق انجینئرز نے 37 خوش منظر سرنگیں تعمیر کی ہیں۔ ہر سرنگ پر خوبصورت نقش و نگار کندہ کرنے کے علاوہ ان سرنگوں پر پتھروں سے بنی ہوئی خوبصورت برجیاں اور تختیاں بھی نصب کی گئی ہیں۔
سب سے طویل ریلوے سرنگ:نیپر سرنگ
نیپر ریلوے اسٹیشن سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر "نیپر سرنگ" واقع ہے۔ یہ درہ بولان کی 25 سرنگوں میں سب سے طویل سرنگ ہے اور اس کی لمبائی 2.4 کلومیٹر ہے۔ اس میں سے گزرتے ہوئے ٹرین تین منٹ کا وقت لیتی ہے۔
محبت کی یادگار سرنگ:میری جین سرنگ
دُزان کے قریب 177 میٹر لمبی سرنگ " میری جین" (یا میری جان) کے نام سے موسوم ہے۔ میری جین بولان ریلوے منصوبے کے چیف انجینئر مسٹر اوگیلاگن کی بیوی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب اس سرنگ کی تعمیر کا کام ہو رہا تھا تو میری جین اپنے خاوند کے ساتھ سائٹ پر رہ رہی تھی۔ ایک دن سرنگ کا راستہ بنانے کے لیے بلاسٹنگ کی جا رہی تھی کہ دھماکے سے ایک بڑا پتھر اچانک اڑ کر میری جین کو جا کر لگا اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئی۔ مسٹڑ او گیلاگن کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی۔ وہ اس کی لاش کو اپنے وطن انگلستان لے جانا چاہتا تھا لیکن اس دورمیں ایسا کرنا بہت مشکل کام تھا۔ اس لیے اس نے بیوی کی لاش کو سرنگ کے اوپر پہاڑی پر دفن کر دیا اور اس سرنگ کو اپنی بیوی کے نام سے منسوب کر کے تختی نصب کر دی۔ اس طرح اس نے دنیا والوں کو اس کے نام کی اور اپنی محبت کی نشانی دے دی۔
ونڈی کارنر سرنگ
دُزان ریلوے اسٹیشن کے ساتھ واقع 127 میٹر لمبی سرنگ "ونڈی کارنر" کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں پہاڑی درہ بہت تنگ ہو جاتا ہے اور ہوائیں جمع ہو کر بہت تیزی سے چلتی ہیں۔ اس لیے سرنگ تعمیر کرنے والے انجینئر نے اس کا نام ونڈی کارنر (یعنی گوشہ ہوا) رکھ دیا۔
کیس کیڈ (سرنگ نمبر 14)
ونڈی کارنر کے بعد تعمیر شدہ سرنگ کو "کیس کیڈ "کا نام دیا گیا ہے جو 165 میٹر لمبی ہے۔ یہاں پہاڑ سے چشموں کا پانی بہتا رہتا ہے اور خوبصورت آبشار کا منظر پیش کرتا ہے۔
پیر پنجہ (سرنگ نمبر 13اے)
کیس کیڈ کے بعد پیر پنجہ نامی سرنگ واقع ہے۔ یہ سرنگ سب سے چھوٹی یعنی صرف 61 میٹر طویل ہے۔ اس سرنگ کے جنوبی جانب جرنیلی سڑک پر پیر پنجہ کی زیارت گاہ ہے جہاں ایک سبیل بھی قائم کی گئی ہے۔
سرِ بولان (سرنگ نمبر 13)
یہ چونکہ درہ بولان کے آخری سرے پر واقع ہے ، اس لیے اس کا نام سرِ بولان رکھا گیا ہے۔ اس کی لمبائی 97 میٹر ہے اور یہ بولان کی آخری سرنگ ہے۔
"خوجک" یا" کوژک" سرنگ
اس کا مقامی نام کوژک ہے جو پشتو میں ٹیڑھے میڑھے یا زگ زیگ کے مترادف ہے۔ انگریزی لہجے میں اس کا نام "کوژک" سے "کھوجک" اور اردو میں "خوجک "بن گیا ہے۔اس ٹنل کی کٹائی کا کام 1888 میں شروع ہوا اور تین سال کی مسلسل محنت کے بعد 1891 میں مکمل ہوا۔ اس کی تعمیر میں ہزاروں مزدوروں نے حصہ لیا۔
یہ سرنگ ابتدا میں دنیا کی چوتھی بڑی سرنگ تھی جب کہ اس وقت یہ دنیا کی آٹھویں طویل ترین سرنگ ہے۔ اس کی لمبائی 3.92 کلو میٹر ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک زمانے میں حکومت پاکستان نے پانچ روپے کے کرنسی نوٹ کی پشت پر اس کی تصویر چھاپی تھی۔
یہ سرنگ اگرچہ بالکل سیدھی ہے مگر اس کے درمیان کوہان کی طرح اتار چڑھائو ہے۔ اس سرنگ کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے اوپر بہت سے چشمے اور ندیاں بہہ رہی ہیں۔ کوژخ کے علاقے میں مزید چھ سرنگیں بھی موجود ہیں۔ ان سرنگوں کے اختتام پر سنزلہ کا ریلوے اسٹیشن ہے۔ پھر کچھ فاصلے پر چمن کا ریلوے اسٹیشن ہے جو یہاں کام کرنے والے ایک مشہور ٹھیکیدار چمن داس ولد لالہ رام چند کے نام سے منسوب ہے۔
کوژک ٹنل کے انجینئرنے خود کشی کیوں کی؟
کوژک ٹنل کے انگریز انجینئر نے اس کی تکمیل سے تین دن قبل اس وقت خودکشی کر لی تھی جب سرنگ اس کی پیش گوئی کئے ہوئے وقت پر مکمل نہ ہو سکی تھی۔ دراصل سرنگ دونوں طرف سے بیک وقت کھودی جا رہی تھی اور جب مقررہ وقت تک سرنگ کے دونوں سرے آپس میں نہ مل سکے تو اس نے اپنی مارکنگ کو غلط سمجھا اور خیال کیا کہ دونوں طرف سے کھودی جانی والی سرنگیں کھدائی کے دوران میں غلط اطراف میں نکل گئی ہیں اور تین سال کی محنت ضائع ہو گیئ ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے آپ کو گولی مار کر خود کشی کر لی کہ اتنے بڑے انجینئر کو اتنی بڑی غلطی کے بعد زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ لیکن اس کی خود کشی کے تین دن بعد دونوں سرے آپس میں مل گئے تھے اور سرنگ مکمل ہو چکی تھی۔
اس وقت درہ کوژک کا راستہ وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے سمندر تک رسائی کا نزدیک ترین راستہ ہے اور یہاں پر گوادر ریلوے لائن کی تعمیر سے بین الاقوامی تجارت کو فروغ ملے گا۔