بجائے شبنم تازہ گلوں پہ خاک نہ ہو

بجائے شبنم تازہ گلوں پہ خاک نہ ہو
بہار آئے مگر کوئی سینہ چاک نہ ہو


ہزار غم سے گزرنے کے بعد بھی اے دل
فسانہ اپنی محبت کا دردناک نہ ہو


بھرم کھلے نہ محبت کا اے دل وحشی
جنوں ہو جوش میں لیکن گریباں چاک نہ ہو


فضول ہے یہ تسلی تماشا ہمدردی
مدد کا جذبہ اگر وجہ اشتراک نہ ہو


ہماری راہ میں کانٹے کہاں سے آئیں گے
جو دشمنوں کے دلوں پر ہماری دھاک نہ ہو


ہمارا خون تو شامل ہو غنچہ و گل میں
فضائے صحن چمن میں ہماری خاک نہ ہو


خدا کا شکر کہ دل میرا صاف ہے منظرؔ
ملوں میں اور ملاقات میں تپاک نہ ہو