بیت عنکبوت

یہ عورت اس لیے پیدا ہوئی ہے
کہ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھانسی پر چڑھایا جائے
اسے یونان کے اک مشہور ڈاکو کے بستر کی ضرورت ہے
(وہ اپنے سب شکاروں کا قد و قامت اسی بستر کے پیمانے کی نسبت سے گھٹاتا کاٹتا یا
کھینچ کا جبراً بڑھاتا تھا)
خطوط لب تو دیکھو!
کس طرح سمٹے ہوئے ہیں، سنگ دل
عامیانہ پن تراوش کر رہا ہے
یہ کینہ توز آنکھیں
ان کی گہرائی کے کیچڑ میں
سنہری مچھلیاں غوطے لگاتی ہیں
روپہلی شاخ توبہ ہے کہ کھلتی بانہہ ہے، لیکن
کوئی سایہ نہیں پڑتا!


میں اپنے خول کے اندر سمٹ کر بیٹھ رہنا چاہتا ہوں
مجھے مینار کی کھڑکی سے جھک کر جھانکنے کی ضرورت کچھ نہیں ہے
مگر وہ فاحشہ زنجیر در کی نیند اڑائے جا رہی ہے
وہ آنکھیں خوب صورت بن گئی ہیں!
مجھے
خم دار زینوں سے اتر کر
نیچے آنا ہی پڑے گا