بہت عزیز تھا عالم وہ دلفگاری کا

بہت عزیز تھا عالم وہ دلفگاری کا
سکوں نے چھین لیا لطف بے قراری کا


ہمیں بھی خو تھی زمانوں سے دل جلانے کی
انہیں بھی شوق پرانا تھا شعلہ باری کا


دلوں میں ان کے رہا اضطراب روز و شب
وہ جن کے سر پہ رہا بوجھ تاج داری کا


وہ جاتے جاتے مجھے اپنے غم بھی سونپ گیا
عجیب ڈھنگ نکالا ہے غم گساری کا


کہا تھا تم سے اے عازمؔ سنبھل سنبھل کے چلو
بھرم نہ رکھا مگر تم نے پردہ داری کا