بہرا گویا

بلند آہنگیوں نے پھاڑ ڈالے کان کے پردے
ہوں وہ مطرب جو خود اپنی صدا ہی سن نہیں سکتا
ہوائیں لے اڑی ہیں سلسلے کو میرے نغموں کے
میں ان بکھری ہوئی کڑیوں کو اپنی چن نہیں سکتا
غرور خوش نوائی بوجھ سا ہے میری گردن پر
زمانہ وجد میں ہے اور میں سر دھن نہیں سکتا