بحر ہستی میں تلاطم کبھی ایسا تو نہ تھا

بحر ہستی میں تلاطم کبھی ایسا تو نہ تھا
خیر و شر کا یہ تصادم کبھی ایسا تو نہ تھا


کھوجتا رہتا تھا انسان وہ گم گشتہ بہشت
خود بناتا ہے جہنم کبھی ایسا تو نہ تھا


بھیجے ہر دور میں جس نے کہ پیمبر اپنے
وہ خدا ذہنوں سے گم ہے کبھی ایسا تو نہ تھا


ساز دل جو کبھی نغمات طرب گاتا تھا
اب ہے محروم ترنم کبھی ایسا تو نہ تھا


علم کے گوہر نایاب جو دیتا تھا کبھی
اب ہے خوناب وہ قلزم کبھی ایسا تو نہ تھا


قتل انسان تو اب روز کا معمول ہوا
دل سے مفقود ترحم کبھی ایسا تو نہ تھا