بہا کے بستی کو مطلع جو کھل گیا سائیں

بہا کے بستی کو مطلع جو کھل گیا سائیں
قبول ہو گئی کہتے ہو وہ دعا سائیں


سو اتنا حبس بڑھایا گیا کہ پھر آخر
چراغ دے کے خریدی گئی ہوا سائیں


یہ کن خطوط پہ دیوار ہم نے کھینچی ہے
کوئی برا نہیں ہم میں نہیں بھلا سائیں


قطع ہوئی ہیں زبانیں کہ بک گئے ہیں سخن
زبان رکھتے ہوئے کوئی چپ رہا سائیں


کریں نہ کس لیے آباد قتل گاہیں ہم
قتیل ہونا ہی ٹھہری اگر جزا سائیں


کہاں سے قند کو لا کر زبان پر رکھتے
ہوئی ہے زہر سے جو آلودہ ہر فضا سائیں


دعائیں کس لیے مانگی تھیں حبس چھٹنے کی
اڑا کے لے گئی آندھی مری ردا سائیں