بدلی بدلی سی گلستاں کی ہوا آج بھی ہے
بدلی بدلی سی گلستاں کی ہوا آج بھی ہے
دست صرصر میں گل تر کی قبا آج بھی ہے
آج بھی خون شہیداں سے ہے تزئین جمال
دست قاتل کو تمنائے حنا آج بھی ہے
کارگر ہو نہ سکا زخم کے مرہم کا علاج
میرے سینے میں ہر اک زخم ہرا آج بھی ہے
آنسوؤں میں بڑی لذت تھی بہت پہلے بھی
اک طرف بیٹھ کے رونے میں مزہ آج بھی ہے
ہاں وہ جاویدؔ وہی تیغ تغافل کا قتیل
ایک منجملہ ارباب وفا آج بھی ہے