بدن پہ گھاس ہری قرب کی اگاتا ہے
بدن پہ گھاس ہری قرب کی اگاتا ہے
یہ نیل روز نئے سامری بلاتا ہے
ہماری پیاس بھی ہے بھید کھولنے والی
وہ پانیوں کو سیہ ریت میں چھپاتا ہے
ہرن کی آنکھ میں پھیلا ہرا بھرا جنگل
دمکتی دھوپ پہ کلکاریاں لگاتا ہے
سکوں کی اور جھپٹتی ہیں بوڑھی چیلیں پھر
نکیلی کرچیاں ہر راستہ اگاتا ہے
گرفتیں خشک ہوئیں اور پھسلنیں شاداب
شکستہ صورتیں ہر آئینہ دکھاتا ہے