بدن کے سارے دفینوں کو چاٹ جاتی ہے

بدن کے سارے دفینوں کو چاٹ جاتی ہے
یہ مفلسی مری پرواز کاٹ جاتی ہے


میں دشمنی بھی سلیقہ سے کر نہیں پاتا
کہ مصلحت مری تلخی بھی پاٹ جاتی ہے


کبھی تو یوں ہے کہ بازو نہیں میسر ہیں
کبھی ہوا ہے کہ پرواز کاٹ جاتی ہے


زباں ہی زخم لگائے یہ کیا ضروری ہے
کبھی کسی کی نظر بھی تو کاٹ جاتی ہے


ندیمؔ ہم بھی ہیں یاجوج کے قبیلے سے
کہ اپنی بھوک بھی دیوار چاٹ جاتی ہے