بدل کے ہم نے طریقہ خط و کتابت کا

بدل کے ہم نے طریقہ خط و کتابت کا
چھپا لیا ہے زمانے سے راز الفت کا


پرانا زخم نیا ہو گیا تو کیا ہوگا
نہ پھینکو تیر ہماری طرف کو نفرت کا


بہار آئی تھی چہرے پہ چار دن کے لیے
نشہ ہے آج بھی آنکھوں میں اس لطافت کا


کبھی تو آؤ ہمارے غریب خانے پر
ہمیں بھی دیجیو موقع جناب خدمت کا


بہت سنبھال کے رکھنا اسے حفاظت سے
کھلونا ٹوٹ نہ جائے مری محبت کا


یہ مشت خاک جو انسان کی حقیقت ہے
تماشا دیکھ رہا ہوں میں اس کی فطرت کا


ہمارے ظرف کو نظروں سے تول کر عارفؔ
اٹھا رہا ہے وہ طوفان اک قیامت کا