بدل گئے ہو

بدل گئے ہو
ذرا سے عرصے میں آہ کیسے بدل گئے ہو
تمہیں خبر ہے
وہ ہاتھ دھرتی نے کھا لیے ہیں
جنہوں نے اپنی ہتھیلیوں میں
ہماری خاطر فقط دعائیں بھری ہوئی تھیں
تمہیں پتہ ہے
وہ ہونٹ مٹی میں جھڑ رہے ہیں
ہمارے چہروں پہ جن کے بوسے جڑے ہوئے ہیں
وہ آنکھیں اندھی لحد میں شاید بکھر چکی ہوں
وہ شب گئے تک
ہماری راہوں میں اپنی کرنیں بکھیرتی تھیں
ہمارے نم کو نمود دے کر
زمیں کو اپنا وجود دے کر
کہاں گئے ہو
زمیں کے نم میں ہمارے پیکر پگھل گئے ہیں
بدل گئے ہو تو آؤ دیکھو
کہ ہم بھی کتنے بدل گئے ہیں


دعائیں مٹی میں گر پڑی ہیں
خدا سے کیسی شکایتیں ہوں
چراغ سانسوں نے پھونک ڈالا
ہوا سے کیسی شکایتیں ہوں جو گھر میں ٹھہریں تو خوف آئے
کہ اپنے پیکر ہیں سائے سائے
سفر پہ نکلیں تو رکتے رکتے
کہ جیسے رخصت کرے گا کوئی
جو راہ تھکنے لگے تو چپکے سے لوٹ آئیں
کہ کوئی واپس نہیں بلاتا
اداس ہوں تو کسے بتائیں
گلے سے کوئی نہیں لگا ہے
جو آئینوں سے الجھ پڑیں تو
یہ کون پوچھے کہ کیا ہوا ہے
جو تم نے بدلا ہے روپ ایسا
تو ہم بھی ویسے نہیں رہے ہیں
نہیں رہے ہو تو ہم بھی رہتے ہیں یوں کہ
جیسے نہیں رہے ہیں