بدل دے

کب تک وطن آلام و مصائب میں خدایا
اب اس کی مصیبت کو مسرت سے بدل دے
کب تک یہ تباہ ستم نکبت داد بار
اب اس کی نحوست کو سعادت سے بدل دے
کب تک یہ شکار الم فاقہ و افلاس
اب اس کی فلاکت کو امارت سے بدل دے
کب تک یہ گرفتار قتال و جدل و جنگ
اب اس کی عداوت کو محبت سے بدل دے
کب تک یہ پشیمان بلا نذر حوادث
اب اس کے غم و رنج کو راحت سے بدل دے
کب تک یہ پرستار وفا وقف خوشامد
اب اس کی اطاعت کو بغاوت سے بدل دے
حد ہو گئی بس اس کی تباہی کی خدایا
اب اس کی غلامی کو حکومت سے بدل دے