بچپن کا وہ زمانہ
آتا ہے یاد مجھ کو بچپن کا وہ زمانہ
رہتا تھا ساتھ میرے خوشیوں کا جب خزانہ
ہر روز گھر میں ملتے عمدہ لذیذ کھانے
بے محنت و مشقت حاصل تھا آب و دانہ
بچوں کے ساتھ رہنا خوشیوں کے گیت گانا
دل میں نہ تھی کدورت تھا سب سے دوستانہ
مہندی کے پتے لانا اور پیس کر لگانا
پھر سرخ ہاتھ اپنے ہر ایک کو دکھانا
آواز ڈگڈگی کی جوں ہی سنائی دیتی
اس کی طرف لپکنا بچوں کا والہانہ
ہر سال پیارے ابو لاتے تھے ایک بکرا
چارہ اسے کھلانا میدان میں گھمانا
وہ دور جا چکا ہے آتا نہیں پلٹ کر
بچپن کا وہ زمانہ لگتا ہے اک فسانہ
دادی کو میں نے اک دن یہ مشورہ دیا تھا
چہرے کی جھریوں کو آسان ہے مٹانا
چہرے پہ آپ کے ہیں جو بے شمار شکنیں
آیا مری سمجھ میں ان سے نجات پانا
کپڑے کی ساری شکنیں مٹتی ہیں استری سے
آسان سا عمل ہے یہ استری چلانا
اک گرم استری کو چہرے پہ آپ پھیریں
عمدہ ہے میرا نسخہ ہے شرط آزمانا
اک روز والدہ سے جا کر کہا کچن میں
اب چھوڑیئے گا امی یہ روٹیاں پکانا
اک پیڑ روٹیوں کا دالان میں لگائیں
اس پیڑ کو کہیں گے روٹی کا کارخانہ
شاخوں سے تازہ تازہ پھر روٹیاں ملیں گی
توڑیں گے روٹیاں ہم کھائیں گے گھر میں کھانا
کیسی عجیب باتیں آتی تھیں میرے لب پر
آج ان کو کہہ رہا ہوں باتیں ہیں احمقانہ
وہ پیاری پیاری باتیں اب یاد آ رہی ہیں
بچپن کا وہ زمانہ کیا خواب تھا سہانا