بچوں سے شفقت ان کا حق ہے: جدید نفسیات نے اسلامی تعلیمات کو سچ ثابت کردیا
"وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔"
بچوں پر شفقت کرنا اور ان سے پیار سے پیش آنا ۔۔۔ان کا حق ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: (یا رسول اللہ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘
(متفق علیہ)
جدید نفسیات میں بچوں سے شفقت کو ان کا بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ آج ایک ایسے ماہر نفسیات کا تذکرہ کریں گے جس نے جدید نفسیات میں اس نظریے کو پروان چڑھایا۔
بچوں سے پیار منع ہے: بیسویں صدی تک ماہرین نفسیات کا تصور
کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ بیسویں صدی کے اوائل میں ایک ایسا دور بھی تھا جب ماہرین نفسیات نے والدین کو اپنے بچوں کو گلے لگانے کے خلاف سختی سے خبردار کیا تھا۔بچوں سے پیار کے اظہار جیسے روتے ہوئے بچے کو تسلی دینے کے لیے اٹھانا یا گلے لگانا اور بوسہ دینا، کو غیر ضروری اور بچے کی علمی نشوونما کے لیے نقصان دہ قرار دیا گیا۔ بیسویں صدی کے پہلے نصف کے دوران، بہت سے ماہرین نفسیات کا خیال تھا کہ بچوں کے ساتھ پیار کا اظہار ایک جذباتی اشارہ سوا کچھ نہیں اور یہ کہ اس کا کوئی حقیقی مقصد نہیں ہوتا۔ اس وقت کے بہت سے مفکرین کے مطابق، پیار صرف بیماریاں پھیلاتا ہے اور بالغ نفسیاتی مسائل کا باعث بنتا ہے۔ماہر نفسیات جان واٹسن (John Watson) کی 1928 کی ایک کتاب نے یہاں تک کہا کہ "ماں کی محبت ایک خطرناک آلہ ہے" جو بچوں کو جوانی میں ناخوشی کی طرف لے جائے گی۔
یہ انداز فکر دہائیوں تک غالب رہا یہاں تک کہ چند افراد نے قابل مشاہدہ نتائج کے بارے میں بات کرنا شروع کردی۔ ہیری ہارلو (Harry Harlow) نامی ماہر نفسیات کو 1950 کی دہائی کے اواخر میں بندروں کے بچوں پر چند تجربات کے ذریعے نفسیاتی برادری کو اپنی طرف متوجہ کیا اور انسانی صحت کے لیے محبت اور رابطے کی اہمیت کو سائنسی طور پر تسلیم کرنے کے لیے ایک تبدیلی کی تحریک کو ہوا دی۔ان کے کام نے نوجوان ریشس بندروں پر محرومی کے تباہ کن اثرات کو ظاہر کیا۔ ہارلو کی تحقیق نے بچپن کی صحت مند نشوونما کے لیے دیکھ بھال کرنے والے کی محبت کی اہمیت کا انکشاف کیا۔
بچوں سے شفقت ان کا حق ہے: جدید ماہر نفسیات ہیری ہارلو کا نظریہ
ہیری ہارلو پہلے نفسیاتی ماہرین میں سے ایک تھے جنہوں نے انسانی محبت اور پیار کی نوعیت کی سائنسی تحقیق کی۔ ان کے تجربات اگرچہ خاصے متنازعہ رہے تاہم ہارلو صحت مند نشوونما کے دوران ابتدائی اٹیچمنٹ، پیار اور جذباتی بندھن کی اہمیت کو ظاہر کرنے میں کامیاب رہا۔
اس کے سب سے مشہور تجربے میں نوجوان ریشس بندروں کو دو مختلف "ماؤں" کے درمیان انتخاب دینا شامل تھا۔ ایک نرم ٹیری کلاتھ کا بنا ہوا تھا لیکن اسے کھانا فراہم نہیں کیا گیا۔ دوسرا تار کا بنا ہوا تھا لیکن اس سے منسلک بچے کی بوتل سے غذائیت فراہم کی جاتی تھی۔ ہارلو نے پیدائش کے چند گھنٹوں بعد نوجوان بندروں کو ان کی قدرتی ماؤں سے ہٹا دیا اور انہیں ان مدر سروگیٹس کے ذریعہ "پالنے" کے لیے چھوڑ دیا۔تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ بندروں کے بچے اپنی تار والی ماں کے مقابلے میں اپنی کپڑے والی ماں کے ساتھ نمایاں طور پر زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، شیر خوار بندر صرف کھانے کے لیے تار ماں کے پاس جاتے تھے لیکن جب وہ کھانا نہیں کھاتے تھے تو نرم، آرام دہ کپڑے والی ماں کے ساتھ اپنا وقت گزارنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ہارلو نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ضرورت کے پیچھے پیار ہی بنیادی قوت تھی۔
بعد میں ہونے والی تحقیق نے ثابت کیا کہ نوعمر بندر سکون اور تحفظ کے لیے اپنی کپڑوں کی سروگیٹ ماں کی طرف بھی رجوع کرتے تھے۔ اس تحقیق نے انکشاف کیا کہ پیار کا بندھن پرورش کے لیے اہم ہیں۔
ہارلو نے ایک "عجیب صورت حال" کی تکنیک کا استعمال کیا جو ایک دوسری محقق میری آئنس ورتھ (Mary Ainsworth) نے تخلیق کی تھی۔ نوعمر بندروں کو یا تو اپنی سروگیٹ ماں کی موجودگی میں یا اس کی غیر موجودگی میں ایک کمرے میں تلاش گھومن پھرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ بندر جو اپنی کپڑے کی ماں کے ساتھ ہوتے تھے وہ اسے کمرے میں گھومنے پھرنے کے دوران ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ جب سروگیٹ ماؤں کو کمرے سے نکالا گیا تو اس کے ڈرامائی اثرات سامنے آئے تھے۔ نوجوان بندروں کے پاس اب اپنا محفوظ ٹھکانہ نہیں تھا اور وہ اکثر ڈٹ جاتے، چیختے چلاتے اور روتے تھے ۔
ہارلو کے کام نے محبت، پیار، اور باہمی تعلقات پر تحقیق کا ایک بیش بہا خزانہ چھوڑا۔
ہارلو کا کام اپنے وقت میں متنازعہ تھا اور آج بھی تنقید کا نشانہ ہے۔ اس نوعیت کے تجربات نے بڑے اخلاقی مخمصے پیدا کیے، تاہم اس کے کام نے بچوں اور نشوونما کے بارے میں سوچنے کے انداز میں تبدیلی کی ترغیب دی اور محققین کو محبت کی نوعیت اور اہمیت دونوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد کی۔