بچوں کی اسلامی تربیت کے رہنما اصول کیا ہیں؟
اسلامی تعلیمات میں اولاد کی تربیت کے سلسلے میں اتنی رہ نمائیاں ہیں کہ ان سے پورا فنِ تربیت ترتیب پاسکتا ہے، ہمارے دینی علمی ورثہ میں اس موضوع پر گفتگو ’والدین پر اولاد کے حقوق‘ کے عنوان کے تحت کی جاتی ہے، خود یہ عنوان اپنے اندر پورا پیغام رکھتا ہے، یہ بتاتا ہے کہ تربیت بلامنصوبہ اور بے ترتیب انجام دیے جانے والے چند افعال سے عبارت نہیں ہے، بلکہ یہ در حقیقت اولاد کے حقوق کی ادائیگی ہے، جن کا حق داروں تک مکمل طور پر پہنچنا لازمی ہے، ورنہ حقوق کی ادائیگی کا مکلف شخص گناہ گار ہوگا۔
والدین کی بڑی تعداد ان حقوق سے مکمل غافل ہے، بہت سے والدین کو تو ان حقوق کی بابت کچھ خبر ہی نہیں ہوتی، اکثر علما بھی ان حقوق کی بابت یاددہانی نہیں کراتے، وہ کچھ اور امور ومسائل کو زیادہ اہم جان کر ان کی ہی بارے میں گفتگو کرتے ہیں، حالاں کہ اولاد کے ان حقوق کی ادائیگی پر ہی قوم وملت کا مستقبل منحصر ہے، اس لیے کہ مستقبل ان بچوں سے ہی عبارت ہے جن سے ہم بسا اوقات چھوٹا جان کر صرفِ نظر کرلیتے ہیں، ان کے والدین غمِ روزگار یا لذتِ دنیا کے ایسے اسیر ہوجاتے ہیں کہ ان پر کچھ توجہ نہیں دیتے، ان کی تعلیم گاہیں ان کی تربیت کو اپنا میدانِ کار نہیں سمجھتیں، ذرائع ابلاغ ان کو سنوارنے سے زیادہ بگاڑتے ہیں… اور پھر ہم حیرت کے ساتھ پوچھتے ہیں کہ آج کل کے نوجوانوں کو ہوا کیا ہے؟ وہ اتنے بگڑ کیسے گئے؟ اپنے باپ دادا کی روش سے ہٹ کیوں گئے؟
حضرت عمرؓ کی خلافت کا ایک واقعہ بعض کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، وہ اس موقع پر قابلِ ذکر ہے: ایک شخص نے حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے بیٹے کی شکایت کی کہ وہ اس کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے، آپؓ نے اس کے بیٹے کو طلب فرمایا اور والد کے ساتھ بدسلوکی پر اس کو سرزنش کی، اس نے دریافت کیا: امیر المومنین! کیا والد پر بیٹے کے کچھ حقوق نہیں ہیں؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کیوں نہیں؟ والد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیٹے کے لیے اچھی ماں کا انتخاب کرے، اس کا اچھا نام رکھے، اور اسے قرآن کی تعلیم دے، اس لڑکے نے عرض کیا: امیر المومنین ! میرے والد نے ان میں سے میرا کوئی حق ادا نہیں کیا، میری ماں ایک مجوسی کی سیاہ فام باندی ہے، والد نے میرا نام ’جُعَل‘ (بھونرا) رکھا ہے، اور قرآن کے ایک حرف کی مجھ کو تعلیم نہیں دی، حضرت عمرؓ نے لڑکے کی زبان سے یہ سنا تو اس کے والد سے فرمایا: ’’تمھارا بیٹا تمھارے ساتھ اب بد سلوکی کررہا ہے، لیکن پہلے تم نے اس کے ساتھ برا سلوک کیا ہے‘‘۔
ہمیں اندازہ ہے کہ لوگوں کو تربیت اولاد کے سلسلے میں کسی نئے طریقے پر آمادہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، اس لیے کہ اس کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ بڑے جس طریقۂ تربیت کو دیکھتے ہوئے جوان یا بوڑھے ہوئے ہیں اس میں تبدیلی لائیں، اس لیے کہ اس طریقۂ تربیت میں بہت سی برائیاں ہیں، جن میں سب سے سنگین غلطیاں یہ ہیں: بچوں کی تربیت پر توجہ ہی نہ دینا، نہایت سختی یا بے جا نرمی برتنا اور بے محل لاڈ پیار دکھانا۔
بہرحال بچوں کی تربیت پر توجہ بہت ضروری ہے، یہ بہت نتیجہ خیز ہوتی ہے، بیک وقت رضائے خداوندی اور نیک نامی کا باعث بنتی ہے۔
اگلے صفحات میں ہم طریقۂ تربیت کی بابت چند اہم کلیدی نکات پر گفتگو کریں گے، اس لیے کہ بہت تفصیلی کلام کی ان صفحات میں گنجائش نہیں ہے۔
سچ بولنے کی تربیت دیں
رسول اللہ ﷺ کے طریقۂ تربیت کا نہایت اہم حصہ یہ تھا کہ لوگوں کو سچ بولنے کا عادی بنایا جائے، اور ان کے ذہن ومزاج میں جھوٹ سے نفرت پیدا کی جائے، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ایک صحیح حدیث میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے: ’’سچ نیکی کی راہنمائی کرتا ہے، اور نیکی جنت کے راستہ پر چلاتی ہے، انسان سچ بولنے کی پابندی کرتا ہے تو ایک وقت وہ آتا ہے کہ وہ ’صدِّیق‘ بن جاتا ہے، جھوٹ گناہ کی راہ چلاتاہے، اور گناہ جہنم میں لے جاتا ہے، انسان مسلسل جھوٹ بولتا ہے تو اللہ کے حضور ’کذاب‘ (بڑا جھوٹا) قرار پاتا ہے‘‘۔[بخاری: ۶۰۹۴، مسلم: ۲۶۰۷، یہاں درج ترجمہ بخاری کے الفاظ کا ہے، جب کہ مسلم کے الفاظ میں کچھ فرق ہے۔]
سچ ہی بولنے کی یہ تاکید آپ صرف قولی طور پر ہی نہیں کرتے تھے، بلکہ لوگوں کو عملی طور پر بھی اس کا پابند بناتے تھے، مثلا ایک مرتبہ آپ کے سامنے ایک عورت نے اپنے کم سن بچہ سے کہا: ’’یہاں آؤ میں تم کو کچھ دوں گی‘‘، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم نے اس کو کیا دینے کا ارادہ کیا ہے؟‘‘، اس عورت نے عرض کیا: ’’کھجور‘‘، آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تم اس کو کچھ نہ دیتیں تو تمھارے حساب میں ایک جھوٹ لکھدیا جاتا‘‘۔ [مسند احمد(تحقیق: شعیب الانٔووط): ۱۵۷۰۲، محقق نے اس کو حسن لغیرہ قرار دیا ہے، سنن ابی داود: ۴۹۹۱، صحیح الجامع: ۱۳۹۱۔]
خود رسول اللہ ﷺ کبھی کسی حال میں بھی جھوٹ نہیں بولتے، یہاں تک کہ اگر کبھی صحیح بات چھپانی بھی ہوتی تو جھوٹ نہیں بولتے، ہاں توریہ سے کام لیتے، غزوۂ بدر کے لیے آپ تشریف لے جارہے تھے، راستہ میں ایک قبیلہ کی بستی سے گزر ہوا، وہاں ایک شخص نے دریافت کیا: آپ کس قبیلہ کے لوگ ہیں؟ آپ نے جنگ کی مصلحت سے اپنی شناخت ظاہر کرنی نہیں چاہی تو یہ فرمایا: ’’نَحْنُ مِنْ ماء‘‘۔ [محمد بن یوسف صالحی: السیرۃ الشامیۃ، ۴؍۴۴، مطبوعہ: قاہرہ، المجلس الاعلیٰ للشؤون الاسلامیۃ] اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے تھے، ایک یہ کہ ہم ساحلی علاقہ کے لوگ ہیں، اور دوسرے یہ کہ ہم پانی سے پیدا ہوئے لوگ ہیں، عربوں کے یہاں پہلے معنی متبادر تھے، جب کہ آپ نے یہ جملہ دوسرے معنی میں بطور توریہ بولا تھا، تاکہ سچ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور اپنی شناخت بھی ظاہر نہ ہو، ظاہر ہے کہ تمام انسان پانی ہی سے پیدا ہوئے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالی نے بھی ارشاد فرمایا ہے: ’’وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ‘‘ [فرقان: ۵۴] (اور وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس کو نسبی اور سسرالی رشتے عطا کیے، اور تمھارا پروردگار بڑی قدرت والا ہے)۔اسی طرح کی احادیث کی بنیاد پر کسی عالم نے کہا ہے: ’’مجھے وہ شخص اچھا لگتا ہے جو جھوٹ سے بچنے کے لیے توریہ ومجاز وغیرہ کا سہارا لیتا ہے۔ [بیہقی: السنن الکبری، مطبوعہ: دار الفکر بیروت، ۱۵؍ ۲۷۰]
جس ماحول میں بڑے جھوٹ بولنے سے احتراز نہ کریں وہاں بچے جھوٹے ہی بنیں گے، اس لیے کہ بچے بڑوں کو جو کرتا دیکھتے ہیں وہی کرتے ہیں، یہ ماحول ان کو جھوٹ بولنا ہی نہیں سکھائے گا، فریب، خیانت اور دوسروں کے حقوق نیز اپنی ذمہ داریوں کے تقاضوں کو پامال کرنے کی تربیت بھی دے گا، اس طرح یہ برائیاں انسانوں میں عام ہوتی جائیں گی، یہ وہی سماجی برائیاں ہیں جن کو آج ہم اپنے ماحول میں ہر طرف دیکھ رہے ہیں، گھر ہو کہ تعلیم گاہ، یا کوئی اور جگہ جہاں ہمارا باہم رابطہ ہوتا ہے، ہر جگہ ان برائیوں کا بول بالا ہے، لوگوں کی بڑی تعداد کا حال یہ ہے کہ وہ سچ بس کبھی کبھار استثنائی طور پر بولتے ہیں، ورنہ ان کا اصل اصول تو جھوٹ بولنا ہی ہے۔
سب سے بدترین جھوٹ ان لوگوں کا جھوٹ ہے جن کو ان کے مناصب دوسروں کا اسوہ بناتے ہیں، یا جن کو ان کے متبعین اپنا پیشوا جانتے ہیں، اور ان کے طرز عمل کی پیروی کو اپنے لیے لازم جانتے ہیں، ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسلام سے نسبت رکھتے ہیں، اور اپنے آپ کو اس کے داعیوں میں شمار کراتے ہیں، لیکن اپنے مفادات ومقاصد کے حصول کے لیے کسی وسیلہ کو اختیار کرنے سے باز نہیں آتے، خواہ وہ صریح جھوٹ ہی کیوں نہ ہو۔
ایسے لوگ دعوتِ اسلامی کے لیے سخت نقصان دہ ہوتے ہیں، لوگ یہ نہیں کہتے کہ یہ لوگ بد اخلاق ہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ جو دعوت اپنے حاملین کو اس گندے کام سے نہیں روک سکتی اس میں کوئی خیر نہیں ہوسکتا، یعنی لوگ ان کی اس ذاتی کمی کی وجہ سے دعوتِ اسلامی سے بدگمان وبے زار ہوتے ہیں۔
ایک اور نہایت بری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی اولاد کو صاف جھوٹ بولنے کا حکم دیتے ہیں، وہ ان سے کہتے ہیں کہ وہ وہ بیان کریں جو ہوا ہی نہیں تھا، یا جو ہوتا اپنی آنکھوں سے انھوں نے دیکھا تھا اس کا انکار کردیں، اس کے نتیجہ میں بچے جھوٹ جیسی گھنونی چیز کو معمولی جاننے لگتے ہیں، اور بچپن سے ہی اس کے عادی ہوجاتے ہیں، پھر وہ بڑے ہوتے ہیں تو لوگوں کی نگاہ میں محترم اور قابلِ اعتماد نہیں رہتے۔ اس سب کے ذمہ دار وہ والدین ہوتے ہیں جو بظاہر چھوٹی نظر آنے والی ان غلطیوں کی سنگینی کا احساس نہیں رکھتے، اور اپنی اولاد کو سب سے زیادہ سنگین ا ور نقصاندہ اخلاقی برائی سے متصف کردیتے ہیں۔
زمانۂ جاہلیت میں بھی جو باعزت لوگ ہوتے تھے وہ اس چیز کو کسی طور پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کی نسبت جھوٹ کی جانب کی جائے، ہرقل کے دربار میں حضرت ابوسفیانؓ کی پیشی مشہور واقعہ ہے، اس وقت وہ اور ان کے تمام ساتھی کافر ہی تھے، ایمان نہیں لائے تھے، اس موقع پر ہرقل نے ان سے رسول اللہ ﷺ کی بابت کچھ سوالات کیے تھے، وہ کہتے ہیں کہ اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ میرے ساتھی مکہ میں جاکر بتائیں گے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے تو میں اس وقت (رسول اللہ ﷺ کے بارے میں) غلط بیانی ضرور کرتا۔[بخاری: ۴۷، مسلم: ۱۷۷۳]
کیا آج لوگ زمانۂ جاہلیت کے عربوں سے بھی زیادہ برا ہونا قبول کرسکتے ہیں؟
اس لیے ہمارے سامنے بس ایک ہی راہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم سچ بولنے کی اہمیت اور جھوٹ بولنے کی سنگینی کا احساس کریں اور اپنے بچوں کو سچ ہی بولنے کی تربیت دیں۔
بچوں کو نر م مزاج بنائیں
تربیت کے سلسلے میں ’نرم مزاجی‘ بھی ایک اہم اصول ہے، جس کی جانب سے بالعموم غفلت برتی جاتی ہے، والدین، نوخیز طلبا وطالبات کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور بہت سے وہ پیشہ ور اور چھوٹی صنعتوں کے مالک جن کا کردار بہت سے بچوں کی تربیت میں کسی صورت والدین سے کم نہیں ہوتا اس اصول سے غفلت برتتے ہیں، جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں وسیع پیمانہ پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جو طویل مدتی بھی ہوتے ہیں۔
نرم مزاجی ایک عظیم اسلامی اصول ہے، یہ ایک عام اصول ہے، جس کا دائرہ صرف بڑوں اور ان کے زیر تربیت چھوٹوں کے درمیان باہمی رویہ تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ اصول تمام انسانوں اور ان کے تمام افعال سے متعلق ہے۔ایک صحیح حدیث میں روایت کیا گیا ہے کہ: آپ ﷺ کے پاس چند یہودی حاضر ہوئے، انھوں نے آکر ’السلام علیکم‘ (آپ پر سلامتی ہو) کے بجائے ’السام علیکم‘ (آپ کو موت آئے) کہا، حضرت عائشہ کہتی ہیں: میں ان کی حرکت سمجھ گئی، میں نے بھی جواب میں کہہ دیا: ’وعلیکم السام واللعنۃ‘ (تم پر موت ولعنت برسے)، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ٹھہروعائشہ! اللہ تعالی کو ہر چیز میں نرم مزاجی پسند ہے‘‘، حضرت عائشہ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! آپ نے سنا نہیں کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے جواب میں کہا: وعلیکم‘‘ (تم پر بھی)۔ [بخاری: ۶۰۲۴]یعنی رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ کو متوجہ فرمایا کہ ان یہودیوں کی اس بدتمیزی کا بھرپور جواب نرمی کے ساتھ بھی دیا جاسکتا ہے۔
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ہی سے مروی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے: ’’اللہ تعالی نرم دل ہیں، نرم مزاجی کو پسند فرماتے ہیں، اور نرمی پر وہ نوازتے ہیں جو سختی یاکسی اور رویہ پر نہیں نوازتے‘‘۔ [مسلم: ۲۵۹۴، اسی مقام پر درج حضرت عائشہ ہی کی ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان منقول ہے: ’’نرم مزاجی جس چیز میں شامل ہوجاتی ہے اسے نکھار دیتی ہے، اور جس چیز سے نکال لی جائے اسے بدنما کردیتی ہے‘‘۔]
حضرت ابو درداؓء سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جسے نرم مزاجی سے نواز دیا گیا اسے خیر سے نواز دیا گیا، اور جسے نرم مزاجی سے محروم کردیا گیا اسے خیر سے محروم کردیا گیا‘‘۔ [صحیح سنن الترمذی للالبانی: ۲؍۱۹۵، صحیح الجامع : ۶۰۵۵۔]
ارشادِ نبوی: ’’…اللہ تعالیٰ نرمی پر وہ نوازتے ہیں جو سختی یا کسی اور رویہ پر نہیں نوازتے‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے نرم طریقۂ کار کو اختیار کرکے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں وہ سخت مزاجی کو اپنا کر حاصل ہونے والے نتائج سے کہیں زیادہ اور کہیں بہتر ہوتے ہیں۔
نرم مزاج مربیوں (والدین واساتذہ وغیرہ) کی نرم مزاجی کے جو بہترین نتائج برآمد ہوتے ہیں سب سے زیادہ ان سے نرم مزاجی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ جس وقت ہم اپنے بچوں کی ذہانت، ان کی کام یابیوں اور ان کے اچھے کاموں پر خوش ہوتے ہیں، یا جب ہمارا بچہ ہماری اطاعت کرتا ہے یا تعلیم پر توجہ دیتا ہے اس وقت اس بات کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو ’نرمی‘ کا اصول یاد دلائیں، اس لیے کہ ایسے وقتوں میں توبچے کی کارکردگی یا اس کے رویہ سے خوش ہوکر’ نرمی‘ فطری نتیجہ ہوتی ہے۔
’نرمی‘ کو یاد رکھنے اور اپنے آپ کو اس کا پابند رکھنے کی اصل ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب ہمیں اپنے بچے میں کند ذہنی، کاموں میں سستی، کم فہمی، یا اس کی حصولیابیوں میں کمی کا احساس ہوتا ہے، یا جب وہ کوئی غلطی کرتا ہے، کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، اور منع کرنے پر بھی باز نہیں آتا، بار بار غلطیاں دہراتا ہے۔ یہ وہ موقعے ہوتے ہیں جب بہت سے مربیوں کو غصہ آجاتا ہے، اور وہ بچے پر سختی یا اسے دھمکانے کو ہی مناسب راہِ عمل سمجھتے ہیں، تاکہ وہ (اپنے گمان میں) بچے کو دھمکاکر اس کی غفلت یا بے توجہی سے اسے باہرنکالیں۔ چند بچوں پر بعض اوقات یہ طریقہ کارگر ثابت ہوجاتا ہے تو ایسے مربی اس کو ہر ایک کے ساتھ اور ہر وقت کا واحد کام یاب طریقہ خیال کرتے ہیں۔
یہ عصا بردار مربی یہ بھول جاتے ہیں کہ بچوں اور اسی طرح بڑوں کے اندر ناپسندیدہ رویے کسی ایک ہی سبب سے نہیں پیدا ہوتے ہیں، بلکہ ان کے اسباب بے شمار ہیں، مختلف اسباب اور ان کی مختلف نوعیتوں کے پیش نظر زیر تربیت بچے یا بڑے کی غفلت، کوتاہی اور اس کے برے رویہ کے علاج بھی مختلف اور گوناگوں ہوتے ہیں۔ اور تمام حالات میں ایک ہی طریقۂ علاج پر اصرار سے فائدے تو کیا ہوتے بے شمار نقصانات کے اندیشے ہیں، ایسے مربی کا حال اس نیم حکیم جیسا ہوتا ہے جو نہایت سنگین امراض اور نزلہ زکام کا علاج ایک ہی دوا سے کرتا ہے، ایسا معالج اپنے سبھی یا اکثر مریضوں کی جان لے لیتا ہے۔
سختی شخصیت کو توڑ کر رکھ دیتی ہے، اس کا شکار انسان اپنے اوپر اعتماد کھوبیٹھتا ہے، وہ اپنے اوپر سختی کرنے والوں سے نفرت کرنے لگتا ہے، اس کے نتیجہ میں ایک ایسا بزدل انسان وجود میں آتا ہے جو ڈرتا تو ہے لیکن شرم وحیا سے عاری ہوتا ہے، وہ خوف یا لالچ کی وجہ سے باتیں مانتا ہے، شوق اور محبت کے ساتھ اطاعت نہیں کرتا، کسی بات کے صحیح ہونے کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کرتا، بلکہ بس سزا کے ڈر سے اس پر کاربند ہوتا ہے۔
پھر جب ایسے بچے اسی ناپسندیدہ روش ورویہ کے ساتھ بڑے ہوکر ہمیں ملتے ہیں تو ہم ایسے ہر شخص اور اس کے ہر رویہ کی مذمت کرتے ہیں، لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم مسلسل بچوں کے ساتھ ناروا سختی کا برتاؤ کرکے معاشرہ میں ایسے افراد کی تعداد بڑھاتے جارہے ہیں، اور اپنے اس غلط طرز تربیت کے ذریعے ان کی زندگیاں تباہ اور برباد کررہے ہیں، ان کے بچپن میں ان کے ساتھ بے جا سختی کی ہماری روش ان کی زندگی کو ہر خوب صورت صفت سے محروم کردیتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آپ کو کوئی ایسا شخص ملے جس کی تربیت اسی سختی وسنگ دلی کے ساتھ کی گئی ہو، لیکن اس کے اندر اس کے اثرات نہ ملیں، لیکن آپ تحقیق کریں گے تو یقینا پائیں گے کہ بچپن یا نوجوانی کی عمر میں کچھ اور اسباب پائے گئے ہوں گے جن کی بدولت اس سختی وسنگ دلی کے نتائج ختم یا کم ہوگئے ہوں گے۔
کچھ بچوں اور بچیوں (بالخصوص مغربی معاشرہ میں مقیم مسلم بچوں) میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے وقت نافرمانی وسرکشی کا رویہ نظر آنا شروع ہوتا ہے، اس وقت ہمارے لیے تربیت کے سلسلے میں ’نرم مزاجی‘ بہت اہمیت حاصل کرلیتی ہے، بہت سے مربیوں کو اس حقیقت کا احساس نہیں ہوپاتا کہ بظاہر سرکشی نظر آرہا یہ رویہ درحقیقت بڑے ہوجانے کے احساس، ایک مستقل شخصیت کے مالک ہونے کی خواہش اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کا ایک (ناروا) مظہر ہے، اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ایسے بچے پربہت توجہ دی جائے، اس کے ساتھ پیار بھرا سلوک کیا جائے، اس کا بہت خیال رکھا جائے، اور مناسب انداز میں اس کی راہنمائی کی جائے، ایسے بچوں کے ساتھ اس سلوک کے بہت شاندار اور نہایت خوش کن نتائج برآمد ہوتے ہیں، جن سے ان کے والدین اور مربیوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں، اور یہ بچے ان کے لیے مایۂ فخر وناز ثابت ہوتے ہیں۔
اگر ہم اِن بچوں کے اندر نظر آرہے اس رویہ کے مظاہر کا (جو حقیقت میں مثبت بھی ہوسکتے ہیں) سخت مزاجی کے ساتھ علاج کرنا چاہیں گے، اور نوجوانوں کو ان کی رائے ونقطۂ نظر سنے بغیر اپنی صوابدید کا بالجبر پابند بنانا چاہیں گے تو ہم امت کے لیے انسانوں کی اگلی نسل تیار نہیں کریں گے، بلکہ ہمارے یہاں پرورش پائے بچے مستقبل میں تربیت یافتہ بندروں اور مانوس جانوروں کے مانند ہوں گے… اور جس امت کے افراد ایسے ہوں اس کی ناکامی ونامرادی میں کیا شبہ ہے۔
کسی بچے یا نوجوان کو ہم ایک غلطی پر ٹوک چکے ہوتے ہیں، اسے اس سے باز رہنے کی تاکید کرچکے ہوتے ہیں، دوبارہ ایسا نہ کرنے کی ہدایت دے چکے ہوتے ہیں، لیکن وہ بچہ بار بار اسی غلطی کا ارتکاب کرتا جاتا ہے، ایسی صورت میں کچھ مربیوں کا غصہ آسمان پر جاپہنچتا ہے، انھیں لگتا ہے کہ اب سوائے پٹائی کے کوئی چارۂ کار نہیں بچا ہے، بس پٹائی کرکے ہی اسے سیدھی راہ پر لایا جاسکتا ہے، وہ احساس نہیں کرپاتے کہ پٹائی اس بچہ کی شخصیت کو مزید نقصان ہی پہنچائے گی، اسے توڑ کر بکھیر دے گی، لیکن اس کی اصلاح وتربیت یوں نہ ہوسکے گی۔ غصہ کی شدت اس مربی کی عقل وفراست پر غالب آجاتی ہے، وہ بھول جاتا ہے کہ ایسے مواقع پر وقار وبردباری جوش وغصہ سے کہیں بہتر ہے۔ ایسے موقع پراگر مربی بچہ کے رخ اور رویہ میں آنے والی اس تبدیلی وکجی پر سنجیدہ غور وفکر کریں اور پھر محبت وشفقت کے ساتھ کوشش کریں تو زندگی کے مسائل پر قابو حاصل کرنے میں بچے کی مدد کرسکیں، اس سلسلے میں وہ ہر وہ راہ اختیار کرسکتے ہیں جو حدیث نبوی میں بیان کردہ اس صحیح اسلامی اصول سے ہم آہنگ ہو: ’’اللہ تعالی نرمی پر وہ نوازتے ہیں جو سختی پر نہیں نوازتے‘‘، یہ اصول حضرت عائشہ کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کے طور پر منقول ہے: ’’نرم مزاجی جس چیز میں شامل ہوجاتی ہے اسے نکھار دیتی ہے، اور جس چیز سے نکال لی جائے اسے بدنما کردیتی ہے‘‘۔[مسلم: ۲۵۹۴]یہ ’نکھارنا‘ اور ’بدنما بنانا‘اپنے ظاہری معنی میں نہیں ہے، یعنی نظر کو بھانا اور نہ بھانا اس سے مراد نہیں ہے، بلکہ یہ الفاظ یہاں معنوی وجوہری خوب صورتی وبدصورتی کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں، جن کی بنیاد پر اہل عقل کسی چیز کو محبوب جان کر قبول کرتے ہیں یا ناپسندیدہ مان کر اس سے اجتناب کرتے ہیں۔
رسول اکرم ﷺ کے طریقۂ تربیت میں نرم مزاجی کی صورتیں بے شمار اور ان کا تنوع لامحدود ہیں، چھوٹا ہوتا کہ بڑا، اطاعت گزار ہوتا کہ گناہ گار، قریبی ہوتا کہ دور کا، عالم ہوتا کہ جاہل، دشمن ہوتا کہ دوست، عبادت کے باب میں غلطی کا مرتکب ہوتا یا عادت سے متعلق امور میں… ہر ایک کی تربیت واصلاح وہاں نرم مزاجی سے ہی کی جاتی، اور اس لیے یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ تربیت کے باب میں آپ کا طریق اور اسوہ بہر صورت نرم مزاجی ہی تھی… اسی نرمی سے آپ نے وہ ربانی نسل تیار کردی تھی جس کے مردوں اور عورتوں نے پوری دنیا میں اسلام کے نور اور اس کی ہدایت کو عام کردیا تھا۔
بچوں کو شفقت کا پیکر بنائیں
’شفقت ومہربانی‘ بھی رسول اکرم ﷺ کے طریقۂ تربیت کے ان اہم اصولوں میں سے ایک ہے جن کی جانب بہت سے مربیوں کا ذہن نہیں جاتا، اور جن کا تذکرہ تعلیم وتربیت کے اداروں وشعبوں میں شاذ ونادر ہی سننے کو ملتا ہے۔
’شفقت ومہربانی‘ ان اہم ترین اخلاق نبوی میں شامل ہے جس کے مظاہر آپ ﷺ کی پوری زندگی میں واضح طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں، حضرت مالک بن الحویرث ؓ سے مروی صحیح حدیث میں ہے: ’’ہم چند ہم عمر نوجوان آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے بیس دن قیام کیا، آپ کو خیال ہوا کہ اتنے دنوں میں ہمیں اپنے اہل وعیال کی یاد آرہی ہوگی، آپ نے ہم سے دریافت فرمایا کہ ہم اپنے پیچھے گھر میں کس کس کو چھوڑ کر آئے ہیں؟ ہم نے آپ کے سوال کا جواب دیا، آپ نہایت نرم دل ومہربان تھے، آپ نے فرمایا: اب تم سب اپنے اپنے گھرواپس چلے جاؤ، ان کو دین کی تعلیم دو، نیکیوں کا حکم دو، اور مجھے جس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح نماز پڑھتے رہنا، جب بھی نماز کا وقت ہو تم میں سے کوئی اذان دے دے، اور جو عمر میں بڑا ہو وہ نماز پڑھادے‘‘۔ [صحیح بخاری: ۶۰۰۸]
ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک اعرابی آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے آپ سے کہا: ’’آپ لوگ بچوں کو بوسہ دیتے ہیں؟ ہم تو نہیں دیتے‘‘۔ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: ’’اگر اللہ نے تمھارے دل سے محبت وشفقت کا عنصر نکال لیا ہو تو میں کیا کروں‘‘۔ [بخاری: ۵۹۹۸، مسلم: ۲۳۱۷]
اقرع بن حابس تمیمیؓ کا شمار معزز ینِ عرب میں ہوتا تھا، وہ اسلام لائے تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ: ’’میرے دس بچے ہیں، آج تک ان میں سے کسی ایک کو بھی میں نے بوسہ نہیں دیا ہے‘‘، آپ نے حیرت سے ان کو دیکھا، اور پھر فرمایا: ’’جو دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش نہیں آتا، اس کے ساتھ بھی رحم نہیں کیا جاتا‘‘۔ [بخاری: ۵۹۹۷، مسلم: ۲۳۱۸]
بخاری ومسلم کی روایت کردہ ایک اور روایت میں حضرت ابو قتادہ کا یہ بیان روایت کیا گیا ہے کہ: ’’نبی اکرم ﷺ ہمارے پاس آئے، امامہ بنت ابی العاص آپ کے کاندھے پر تھیں، اسی حال میں آپ نے نماز پڑھی، رکوع کرتے وقت ان کو اتاردیتے، اور اٹھتے تو دوبارہ ان کو اٹھالیتے‘‘۔ [بخاری: ۵۹۹۶، مسلم: ۵۴۳] شارحین نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں بیان کردہ واقعہ سے ہمیں آپ ﷺ کی اپنی اولاد کے ساتھ شفقت ومحبت کا بہت عجیب وغریب رنگ نظر آتا ہے، خیال رہے کہ امامہ بنت ابی العاص آپ کی نواسی تھیں، ان کی والدہ رسول اکرم ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب تھیں، اور اولاد کی اولاد بھی اولاد ہی کے زمرے میںا ٓتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ کی قولی وعملی سنت آپﷺ کی ’شفقت ومہربانی‘ کے مظاہر سے بھری ہوئی ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تربیت کے سلسلے میں اس کی رعایت کس قدر اہم ہے۔
یہ ’شفقت ومہربانی‘ صرف انسان کی اپنی ایک اچھی اخلاقی خصلت، یا (اللہ کی رضا کے بعد)بندوں کی نگاہ میں مقبول ہونے کا ایک وسیلہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک نہایت مفید ونتیجہ خیز اصولِ تربیت ہے، جو اپنے زیر سایہ پروان چڑھنے والے نوجوانوں میں نہایت مبارک اثرات چھوڑتی ہے۔
’شفقت ومہربانی‘ کی فضا میں پروان چڑھے افراد بڑے ہونے کے بعد دوسروں کو محبتیں بانٹتے ہیں، اور خود بھی لوگوں کی نگاہ میں محبوب قرار پاتے ہیں، وہ آپ سے نہایت خوش روئی وخندہ پیشانی کے ساتھ ملتے ہیں، تو آپ بھی ان کی جانب شوق اور خوشی کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتے ہیں، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں، رشتے نبھاتے ہیں، اس لیے کہ اسی ماحول میں وہ پروان چڑھے ہوتے ہیں۔
یہ لوگ اپنے کسی دوست اور ساتھی کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش نہیں آتے ہیں، بلکہ لوگوں کے لیے عذر تلاش کرتے ہیں، اور تعلق شکنی سے پہلے ہزار بار تعلقات نبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
محبت وشفقت کے ماحول میں پروان چڑھے یہ لوگ اگر قیادت وسیادت کا منصب پاتے ہیں تو ان کے ماتحت ان کو اپنا ہی محسوس کرتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ ایسے لوگ ان کے لیے وہی پسند کرتے ہیںجو اپنے لیے پسند کرتے ہیں، اسی وجہ سے ایسے لوگ اپنے کاموں میں بہت کام یاب، اپنے منصوبوں کو بہت آگے لے جانے والے اور ان لوگوں پر بہت مثبت اثرات ڈالنے والے ثابت ہوتے ہیں جن کے ساتھ ان کا واسطہ پڑتا ہے۔
ایسے لوگ بالعموم حس لطیف، ذوق سلیم، صحیح فکر اور مطمئن نفوس کے حامل ہوتے ہیں، اور یہ سب چیزیں مشکلات وصبر آزما وقتوں میں انسان کے لیے بڑی معاون ثابت ہوتی ہیں، انسان کے ساتھ خواہ کیسے ہی شدید صبر آزما حالات کیوں نہ پیش آجائیں وہ رحمت خداوندی کو اپنے آپ سے قریب تر پاتا ہے، اور ہر حال میں خیر کی امید اس کو مطمئن رکھتی ہے۔
شفقت ورحمدلی کے زیر سایہ پروان چڑھے ایسے لوگوں کو آپ جود وسخا سے متصف اور بخل وخودغرضی جیسی صفات سے محفوظ پائیں گے، آپ دیکھیں گے کہ ایسے لوگ خود کا نقصان برداشت کرکے بھی دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، اللہ کی طرف سے ملی ہوئی نعمتوں میں محتاجوں کا حق مانتے ہیں، اپنی ضروریات سے زائد رقم، بلکہ بسا اوقات اپنی ضرورتوں سے صرف نظر کرکے والدین، اعزہ واقارب، دوستوں، پڑوسیوں اور دیگر حق داروں کے لیے خرچ کردیتے ہیں، وہ اسے دوسروں کے حقوق اور اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی ہی خیال کرتے ہیں، یہ جذبہ ان کے اندر اس ماحول کا پیدا کردہ ہوتا ہے جس میں یہ پروان چڑھے ہوتے ہیں،اس ماحول میں انھوں نے ہر سو محبت، شفقت اور رحمدلی کو دیکھا ہوتا ہے، بچپن کا یہ ماحول ہی ان کے اندر سختی ودرشتی سے دوری پیدا کرتا ہے۔
جس کے دل سے شفقت ورحمدلی کے جذبات نکال لیے جائیں وہ بڑا محروم اور بدبخت ہی ہوتا ہے، رسول اکرمﷺ کا ایک ارشاد ہے: ’’زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا‘‘، ایک اور روایت میں آپ کا ارشاد نقل کیا گیا ہے: ’’اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے رحمدلوں پر ہی رحم فرماتا ہے‘‘،[صحیح الجامع الصغیر، للالبانی: ۸۹۶، ۲۳۸۱] صحیح بخاری کی روایت ہے: ’’جو رحم نہیں کرتے ہیں ان پر رحم نہیں کیا جاتا ہے‘‘،[صحیح الجامع الصغیر، للالبانی: ۶۰۱۳] ’’جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا اس پر اللہ رحم نہیں کرتا ہے‘‘۔ [صحیح الجامع الصغیر، للالبانی: ۷۳۷۶]
مربیوں (بالخصوص والدین اور مختلف نوعیت وسطح کے تعلیمی اداروں میں موجود طلبا کی تربیت کے ذمہ داروں) کی ذمہ داری ہے کہ وہ تربیت کے سلسلے میں ’شفقت ورحمدلی‘ کی اہمیت اور انسانی شخصیت کی تعمیر میں اس کے عظیم اثرات کو سمجھیں، اور یہ جانیں کہ جو زیر تربیت بچے مہر ومحبت سے محروم رہتے ہیں ان کے اندر سخت مزاجی وسنگ دلی جیسی تباہ کن صفات پیدا ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
مربی زیر تربیت بچے یا فرد سے جتنی محبت کرتا ہے اس کے ساتھ اتنی ہی رحمدلی کے ساتھ پیش آتا ہے، محبت کے بغیر وہ اپنے زیر تربیت بچوں کو ذرہ برابر بھی نفع نہیں پنہچاسکتا ہے، اس لیے کہ انسانی نفوس نہایت حساس ہوتے ہیں، وہ دوسرے انسان کی باتوں کا اثر اس کے جذبات کے مطابق ہی قبول کرتے ہیں، ایک شفیق ومہربان شخص کی باتیں انسانوں پر جلداور مفید اثرات ڈالتی ہیں، دوسری طرف اگر کوئی شخص نفرت کرتا ہے، یا بے دلی کے ساتھ اپنا فرض نبھاتا ہے، یا بے پروا ہوتا ہے تو اس کی باتیں یا تو دل تک پہنچتی ہی نہیں ہیں،اور اگر پہنچتی بھی ہیں تو نفع بخش نہیں ہوتیں، بلکہ بسا اوقات ایسے شخص کی باتیں الٹی نقصاندہ ہی ثابت ہوتی ہیں، جن پر بسا اقات اس شخص کو تب افسوس ہوتا ہے جب افسوس کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، قیامت کے روز اس شخص کو اپنے اس رویہ کا جواب بھی دینا ہوگا، اس لیے کہ اس دن ہر شخص سے یہ سوال ہوگا کہ اس نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا تھا؟ اور ان کے تئیں اپنی ذمہ داریاں کس طور ادا کی تھیں؟ اگراس نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا ہوگا تو اس کو اپنے عمل سے کہیں بہتر بدلہ ملے گا، اور اگر بر اسلوک کیا ہوگا تو اس کی تمنا یہ ہوگی کہ اس سے اس بابت سوال نہ ہو، اور اس کی سزا سے بھی وہ محفوظ رہے۔
پورے معاشرہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے کے ہر فرد وطبقہ میں رحمدلی کا مزاج پیدا کرنے کی کوشش کرے، اس لیے کہ قرآن کے بیان کے مطابق کامل مومن وہی ہیں جو ’’ایک دوسرے کو ثابت قدمی ورحمدلی کی تلقین کریں‘‘، [بلد: ۱۷] قیامت کے دن یہی لوگ نصیبہ ور ہوں گے [بلد: ۱۷]۔
صالح تربیت کی اولین ذمہ داری گو کہ والدین، اساتذہ اور ان جیسے ان افراد پر ہوتی ہے جن سے تربیت براہ راست متعلق ہوتی ہے، لیکن معاشرے کے تمام ادارے اور مقتدر ومؤثر افراد بھی تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں، اس لیے کہ لوگوں پر ان کے کردار ورویوں کا بڑا اثر پڑتا ہے، عوام کے لیے یہ افراد اسوہ اور نمونہ ہوتے ہیں، عام عوام کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان سے براہ راست متعلق ہوتی ہے، ان پر تو ان کے اثرات اور بھی زیادہ ہوتے ہیں، معاشرہ میں ممتاز حیثیت کے مالک سمجھے جانے والے ان لوگوں کے اثرات معاشرہ کے افراد تک حیرت ناک تیز رفتاری کے ساتھ منتقل ہوتے ہیں، عربوں کے یہاں معروف ضرب المثل ’’لوگ اپنے حکم رانوں کے طریق پر ہوتے ہیں‘‘ کوانسانی تجربہ نے بالکل صحیح ثابت کردیا ہے، اسی لیے آں حضرت ﷺ کا ارشاد ہے: ’’لوگوں کا امیر ان کا ذمہ دار ہے، اور ان کی بابت جواب دہ ہے‘‘۔ [بخاری: ۸۹۳، مسلم: ۱۸۲۹]
بہادری اور جرات کا سبق سکھائیں
تربیت کے اسلامی منہج کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ بچے کو بہادری اور حق کے سلسلے میں جرات کا سبق پڑھایا جائے۔
ایک روز رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں کچھ معززین حاضر خدمت تھے، آپ کی دائیں جانب ایک کم سن بچہ بیٹھا تھا، مہمانوں کے لیے دودھ آیا، تو آپ ﷺ نے بچے سے دریافت کیا: کیا تم مجھے اس کی اجازت دیتے ہو کہ میں تم سے پہلے دودھ کا پیالہ ان کو دوں؟ وہ بچہ بولا: ’’نہیں یا رسول اللہ! بخدا میں آپ سے وابستہ اپنی اس سعادت کی قربانی کسی اور کی خاطر نہیں دوں گا‘‘، اس حدیث کے راوی صحابی حضرت سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ نے وہ پیالہ اس کے ہاتھ میں دے دیا‘‘[بخاری: ۲۳۵۱، مسلم: ۲۰۳۰]۔
ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اس روایت پر سرسری نظر ڈال کر آگے بڑھ جائے، کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے مہمانوں کو ایک دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا تو اس میں کیا خاص بات ہے؟ لیکن اگر کوئی شخص اس حدیث پر غور کرے گاتو اس میں انسانوں اور قوموں کی تربیت کے سلسلے میں نہایت اہم راہنمائیاں پائے گا۔
اس حدیث سے ہمیں جو پہلا درس ملتا ہے وہ یہ ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے دائیں جانب بیٹھے ہوئے بچے کی کمسنی کے باوجود سب سے پہلے دودھ پینے کے اس کے حق کا پاس رکھا، اس کی کمسنی کی وجہ سے یا مجلس میں حاضر دیگر لوگوں کے مقام کی وجہ سے اس کے اس حق سے صرف نظر نہیں کیا، اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حق مستحق کو ہی ملنا چاہیے، اس سلسلے میں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ مستحق کس حیثیت کا ہے؟ اور اس کے حق کی ادائیگی سے اگر کوئی تکلیف محسوس کررہا ہے تو وہ کس سطح کا ہے؟۔
رسول اللہ ﷺ کے اختیار کردہ اس طرزِ عمل سے بچے کی یہ تربیت بھی ہوتی ہے کہ اسے اپنے حقوق کا علم بھی ہونا چاہیے، اگر کوئی اس کے حق کو درخور اعتنا نہ جانے تو اسے یہ صورت حال قبول نہیں ہونی چاہیے، خواہ ایسا کسی اس سے عمر دراز شخص کے اکرام کے نام پر ہی کیوں نہ کیا جا رہا ہو، اس حدیث میں بڑوں کے لیے بھی یہ درس ہے کہ ان کی عمر انھیں کسی ایسی چیز کا حق دار نہیں بنادیتی ہے جو ان کا حق نہیں ہے۔
اس حدیث سے تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس امت کے بچوں کی تربیت میں بچپن سے ہی جرات اور حوصلہ مندی جیسی صفات پیدا کرنے کا بہت خیال رکھا جاتا تھا، اس بچہ کی خواہش تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے فوراً بعد برتن سے دودھ پینے کی سعادت اسے حاصل ہو، اور اس کی نشست اس خواہش کی تکمیل کو اس کا حق بناتی تھی کہ وہ آپ ﷺ کے دائیں جانب بیٹھا تھا، اور آپ ﷺ کی سنت یہ تھی کہ مجلس میں کھانے پینے کو کچھ آتا تو آپ اس کا آغاز اپنے دائیں جانب سے کرتے، اس نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ وہ اپنے اس حق سے دستبردار ہوجائے، اس کے سامنے جو لوگ تھے اور جنھیں دودھ پینا تھا وہ معاشرہ کے معزز ترین لوگ تھے، اور رسول اللہ ﷺ کے مہمان تھے، پھر بھی اس نے بے خوف وبلاجھجھک اپنی بات کہی، اور اس کی اس روش پر اسے رسول اللہ ﷺ نے روکا نہ اس کی سرزنش کی، بلکہ اسے مہمانوں سے پہلے دودھ کا پیالہ دیا، کہاں یہ تربیت!!! اور کہاں ہمارے یہاں کی جانے والی وہ تربیت جس میں ہر بڑے سے ڈرنے کی تعلیم دی جاتی ہے!!!۔کہاں ایک بچے کے ساتھ یہ معاملہ!!! اور کہاں اپنے بچوں کے ساتھ ہمارا معاملہ!!! ہم تو بچوں کے ساتھ ایسے معاملہ کرتے ہیں کہ جیسے وہ کچھ جانتے اور سمجھتے ہی نہ ہوں، ہمارے یہاں تو چھوٹوں سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ بڑے جو کہہ دیں اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیا جائے، اس کے سلسلے میں کچھ پوچھنے اور سمجھنے کا حق بھی بچے کو نہیں دیا جاتا، ہمارا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ بڑوں کی ہر بات پر عمل کیا جائے خواہ اس کی حکمت اور اس کا نتیجہ انھیں معلوم ہو یا نہ ہو۔
یہ بچہ جس نسل سے تعلق رکھتا تھا اس کی تربیت رسول اللہ ﷺ نے اپنی مجلسوں، جنگوں اور سفروں میں کی تھی، ان کے اندر آپ نے جرات وبہادری پیدا کی تھی، اسی تربیت کا فیض تھا کہ اس نسل نے دنیا تک اسلام پہنچایا، اور اسلام کے ذریعے دنیا کی قیادت کی، آپ ﷺ کے اس طرز تربیت سے فیض یافتہ یہ وہ نسل تھی کہ جب کبھی حضرت عمرؓ کے سامنے کوئی مشکل صورت حال درپیش ہوتی تو وہ، باوجودیکہ عظیم شخصیت کے مالک تھے، اس نسل کے افراد سے رجوع کرتے، اور ان کی عقل سے فائدہ اٹھاتے۔
بچوں کو عیش پسندی کا عادی نہ بنائیں
افراد ہوں کہ اقوام، خوشحالی کسی کے ساتھ ہمیشہ نہیں رہتی، خوشحال قومیں جد وجہد بھری زندگی نہیں گزار پاتیں، حالاتِ زمانہ سے نبرد آزما ہونے اور وقت کا دھاراتبدیل کردینے کی صلاحیت بالعموم ان میں نہیں پائی جاتی۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کی تربیت میں بہادری، سادگی اور مشکلات کو برداشت کرنے جیسے امور کا بہت خیال رکھتے، خوش عیشی، سامانِ راحت اورتکلفات سے بھرپور طرز زندگی اختیار کرنے سے روکتے، اس لیے کہ آپ جانتے تھے کہ اس طرزِ زندگی کے افراد ومعاشروں پر کیسے نقصاندہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تربیت نبوی کے اسالیب پر غور کریں تو ہمیں اس کے بہت دلائل ملتے ہیں، اسی کے پیش نظر آپ نے مردوں کے لیے سونے اور ریشم کے استعمال کی ممانعت کی، نازک مزاجی ولباس میں عورتوں کی مشابہت سے مردوں کو روکا، مرد کو اظہار فخر ونازکے لیے کپڑا لٹکاکر چلنے سے منع کیا، اور اس کی بابت سخت ترین آگاہی دیتے ہوئے کہا: ’’جو مرد اپنے لباس کو فخر وناز میں لٹکاکر چلے گا اللہ اس کی جانب نظر کرم نہیں فرمائے گا‘‘۔ [بخاری: ۵۷۸۳، مسلم: ۲۰۸۵]اسی طرح ایک روایت میں آپ سے ایسے شخص کے لیے مغفرت کی بشارت منقول ہے جو دن بھر کام کرکے شام کو تھک جائے۔ [یہ روایت طبرانی اور ابن عسکر نے نقل کی ہے، حافظ عراقی اور حافظ ہیثمی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو: فیض القدیر، مناوی: ۶؍۸۸]
یہ احادیث اور ذخیرۂ احادیث میں موجود ایسی بہت سی احادیث اس بے جا خشکی اور مصنوعی تقوے کا مطالبہ نہیں کرتی ہیں جو ہمیں کچھ اسلام کے حقیقی علم سے بے بہرہ اور اس کے صحیح فہم سے محروم مسلمانوں اور داعیوں کے یہاں نظر آتا ہے، بسا اوقات ایسے لوگ سادہ لوح ہوتے ہیں، اور اچھی نیت رکھتے ہیں، لیکن اسی غلط طرز فکر کی وجہ سے بہت سے لوگ ان داعیوں سے دور بھاگتے ہیں جن کی دعوت لباس، آدابِ خورد ونوش اور ظاہری امور تک محدود رہتی ہے۔ اگر ان اور ان جیسی احادیث کو صحیح طور پر برتا جائے، یعنی ان کے سلسلے میں یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ یہ امت کی رہ نمائی نفع بخش طرز وطریقہ کی جانب کرتی ہیں، مربی مردوں اور عورتوں کو ان اصولوں کی جانب متوجہ کرتی ہیں جن کے مطابق اگلی نسلوں کی پرورش ہونی چاہیے، تعلیمی منصوبوں، نظاموں اور نصابوں کو، بلکہ ورزش، تربیت اور سیاست سے متعلق خاکوں کو ترتیب دینے والوں کے لیے ان صفات کو واضح کرتی ہیں جو ایک مسلمان کے اندر ہونی چاہییں،یعنی: مردانگی لیکن کرختگی نہیں، سادگی پسندی لیکن بد اخلاقی نہیں، ناپسندیدہ امور پر صبر، ادب لیکن بے حیائی سے پرہیز، ہر حق والے کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ اللہ کی نعمتوں کا استعمال، اگر ان حدیثوں سے ان کی یہ حقیقی راہ نمائیاں حاصل کی جائیں تو یہ احادیث اگلی نسلوں کو پچھلی نسلوں کے مقابلہ میں زیادہ اچھا ومفید بنانے میں اہم کردار ادا کریں گی۔
محبوب صفت بنائیں
مردانگی، سادگی، جرات وشجاعت کی تربیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان ایسا خشک ہوجائے کہ کسی سے محبت ہی نہ کرے، ایسا سخت دل ہوجائے کہ کسی کے لیے اس کا دل پسیجے ہی نہیں۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ اسلامی تربیت کا فیض یافتہ مسلمان ایسی شخصیت کا مالک ہوتا ہے کہ لوگ اس سے ملنے کے مشتاق ہوتے ہیں، اس کی گفتگو کو غور سے سنتے ہیں، اس کی خیرخواہی اور اس کی مخلصانہ محبت پر اطمینان رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہ کچھ بولتا ہے تو لوگ اس کے لیے ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں، وہ کسی بات کی دعوت دیتا ہے تو اس کی صدا پر لبیک کہتے ہیں، اپنے ذاتی نازک معاملات میں اس پر اطمینان کرتے ہیں، وہ آجائے تو مثلِ پروانہ اس کے گرد جمع رہتے ہیں، نہ ملے تو اس کے منتظر رہتے ہیں۔
دوسری طرف دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ لوگ ان سے ملنا ہی نہیں ان کا نام لینا گوارا نہیں کرتے، انھیں سخت مزاج، متکبر اور بداخلاق جانتے ہیں، کوئی ان سے محبت نہیں کرتا، کسی مجلس میں جاپنہچیں تو لوگوں کو ان کا وجود ناگوار گزرے، نہ آئیں تو لوگ شکر منائیں، اس لیے کہ وہ ہر ایک سے بد اخلاقی، بدسلوکی اور تکبرکے ساتھ پیش آتے ہیں، یقینا ایسا انسان اللہ اور اللہ کے بندوں کی نگاہ میں قابلِ مذمت وناپسندیدہ ہے۔
مربیوں کے اقوال وافعال بچوں اور نوجوانوں کے اخلاق پر بہت اثر ڈالتے ہیں، مثبت بھی اور منفی بھی، جس مربی کے اقوال وافعال مثبت اثرات ڈالیں وہ اپنے زیر تربیت فرد کی ہر نیکی میں شریک اور اس پر ثواب کا مستحق ہے، لیکن جو مربی اپنے برے اقوال وافعال سے بچے یا نوجوان پر غلط اثرات ڈالے، اس کے اندر برائیاں پیدا کرے تو ایسا مربی اس بچے یا نوجوان کی برائیوں کا ذمہ دار اور گناہ گار ہے۔
رسول اکرم ﷺ کے اخلاق کا کیا کہنا؟ لیکن آپ ﷺ سے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ پاک میں فرمایا تھا: ’’وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ‘‘ [آل عمران: ۱۵۹](اگر تم سخت دل اور سخت مزاج ہوتے تو یہ لوگ تم سے دور ہوجاتے)، اور آپ کو ایسے طریقہ کی راہنمائی کی تھی جس کے ذریعے آپ کی شخصیت اپنے صحابہ ومتبعین کی نگاہ میں مزید محبوب ودلربابنے، ارشاد فرمایا تھا: ’’وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ‘‘ [حجر: ۸۸] (اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ان کے لیے اپنی شفقت کا بازو پھیلادو)۔
اہل ایمان کی باہمی محبت، جس کا وہ ایک دوسرے سے اظہار کریں یا نہ کریں، اللہ کی خاطر کی جانے والی اس محبت کا ایک مظہر ہے جو مومنین کو ایک لڑی میں پروتی ہے، اور جو ان کا اس دنیا میں امتیازی وصف ہے، مومنین کے علاوہ اس دنیا میں جتنے لوگ بھی بستے ہیں ان کی لوگوں سے محبت دنیوی منافع، ذاتی خواہشات یا فطری رجحانات کی وجہ سے ہوتی ہے، جب کہ اہل ایمان کے یہاں لوگوں سے محبت اللہ کی خاطر ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کو اس کی تاکید فرماتے رہتے تھے، مثلا حضرت ابو ذرؓ سے آپ نے فرمایا تھا: ’’کسی نیکی کو حقیر مت جاننا، کسی شخص سے مسکرا کر ملنے کو بھی‘‘۔ [مسلم: ۲۶۲۶]
آپ ﷺاپنے صحابہ کو خوش کلامی اور نرم گفتاری کی تاکید فرماتے، بتاتے کہ یہ جہنم سے نجات دلانے والا عمل ہے، ایک مرتبہ فرمایا: ’’جہنم کی آگ سے بچنے کی کوشش کرو، زیادہ کچھ نہ کرسکو تو کھجور کا ایک ٹکڑا ہی صدقہ کردو، جو اس کی بھی گنجائش نہ پائے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اچھی گفتگو بھی جہنم کی آگ سے بچاتی ہے‘‘۔ [بخاری: ۶۵۴۰، مسلم: ۱۰۱۶]آپ ﷺ نے اچھی اور نرم گفتگو کو باعث ثواب واجر بتایا ہے، آپ کی حدیث ہے: ’’اچھی گفتگو ایک نیکی ہے‘‘۔[بخاری: ۲۸۹۱، ۲۹۸۹]
ہمیں تربیت کے ان اصولوں کو سمجھنا چاہیے، اپنی اولاد کو ان اسلامی اخلاق سے آراستہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو عظیم قومیں تشکیل دیتے ہیں، یہ اخلاق ہیں: ہمت، بہادری، حق کی خاطر جرات، محبت، خیر کے کاموں میں تعاون، استطاعت ہو تو ایسے کاموں کو انجام دینا، اچھے کاموں کو انجام دینے سے قاصر ہوں تو کم از کم اچھی گفتگو۔ عربوں کے یہاں یہ زریں قولِ حکمت بہت معروف رہا ہے: ’’نیکی کمانے کا طریقہ بہت آسان ہے: خنداں پیشانی اور نرم گفتاری‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں چیزیں کچھ مشکل نہیں۔
(ترجمہ: الیاس احمد نعمانی)